شفاف کرسٹل کی جوتی اور گدلا پانی

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
میاں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا تب بھی میاں صاحب کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کاشتکار سخت پریشانی کا شکار تھے مجھے ٹھیک سے یاد نہیں غالباً کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا بحر حال انہی دنوں کی بات ہے ہم صادق آباد سے آگے سنجرپور کی طرف جا رہے تھے اچانک سڑک پر ایک ہجوم سے واسطہ پڑ گیا کوئی ڈیڈھ دو سو لوگ ہونگے انہوں نے درخت کاٹ کر سڑک پر ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے راستہ بلاک ہو گیا وہ لوگ حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے انہوں نے ہمیں راستہ نہ دیا بلکہ پیچھے بھی ایک درخت کا تنا ڈال دیا ہم نہ آگے جانے کے نہ پیچھے ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور انکی آنکھوں میں شرارت بھی میرے میاں بھی پریشان ہو گئے بچے بھی چھوٹے تھے سہم گئے تب ایک بھلامانس شخص آگے بڑھا اس نے کہا آپ گاڑی کچے میں اتار کے قریب میرا گھر ہے وہاں چلے جائیں جب راستہ صاف ہو چلے جانا میرے میاں نے گاڑی کچے میں اتاری اور اس آدمی کے گھر چلے گئے کچے احاطے میں دو کچے کوٹھے بنے ہوئے تھے تین چار چارپائیاں بچھی تھیں جن پرچند عورتیں بیٹھی تھیںقریب ہی کچھ ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے ہمیں دیکھا تو وہ عورتیں لپک کر آئیں اور لے جاکر چارپائی پر بٹھا دیا میں جوتی اتار کر پائوں اوپر کر کے بیٹھ گئی کچے صحن میں جا بجا گرد اڑ رہی تھی پائوں مٹی میں دھنستے تھے وہ عورتیں بڑے اشتیاق سے ہمیں دیکھی جا رہی تھیں میرے گورے چٹے صاف ستھرے بچے ان میں اجنبی ہی لگ رہے تھے یہ پتہ چلنے کے بعد کہ ہم کس مجبوری کے تحت ان کے گھر وارد ہوئے ہیں سر ہلانے لگیں کہ بی بی ہمارے جوان دو دن سے شور شرابا کر رہے ہیں لیکن حکومت سنتی نہیں ہے ہم غریب لوگ اور کیا کریں۔

اس اثنا میں میرے بچوں نے پانی مانگا تو وہ عورت پریشان سی ہو گئی میں نے دیکھا درخت کے نیچے بنے کچے چبوترے پر دو مٹی کے گھڑے پڑے تھے جن کے منہ پر ململ کے کپڑے بندھے تھے آخر وہ عورت جھجھکتے ہوئے گئی اور سٹیل کے گلاس میں پانی لے آئی میں نے دیکھا سٹیل کے گلاس میں بھی وہ پانی بہت گدلا لگ رہا تھا میں نے اسے کہا تم نے گھڑوں پر میلے کپڑے کیوں باندھ رکھے ہیں وہ کہنے لگی یہ بات نہیں ہے وہ گئی اور گھڑا اٹھا لائی کہا اس میں دیکھو میں نے دیکھا اس میں باریک باریک سیاہی مائل سرخ کیڑے پڑے تھے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟کہتی یہ ملپھیں ہیں (جونکیں) ہم دُبے سے پانی بھرتے ہیں دُبا جوہڑ کو کہتے ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے اور انسان اور جانور وہیں سے پانی پیتے ہیں کیونکہ ان علاقوں کا پانی زمین کے نیچے کڑوا ہے نلکے لگ نہیں سکتے لوگ یا تو دبوں کا پانی پیتے ہیں یا دور دور سے بھر کے لانے پر مجبور ہوتے ہیں اُف خدایا میں نے کہا ہم تو یہ پانی مر کے بھی نہیں پی سکتے تم لوگ کس طرح پی لیتے ہو وہ کہنے لگی مجبوری ہے ہمارے بچوں کے پیٹ میں یہ ملپھیں چلی جاتی ہیں اور ان کا خون چوستی رہتی ہیں اس لیے ان کے تن کو روٹی بھی نہیں لگتی میں نے دیکھا سوکھے سوکھے بچوں کے پیٹ بڑھے ہوئے تھے میرا دل گھبرانے لگا اللہ اللہ کر کے دو گھنٹے بعد میاں نے آ کر خوش خبری دی کہ پچھلے والا تنا انہوں نے اٹھا لیا ہے۔

Water

Water

ہم واپس چل رہے ہیں میں نے جلدی سے نیچے اترنے کے لیے اپنی جوتی دیکھی تو غائب لو ایک اور مصیبت ۔۔۔ میری نظروں کے تعاقب میں اس عورت نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک نوعمر لڑکی زمین پر بیٹھی اپنی گود میں کچھ چھپائے ہوئے تھی اس نے جا کر اسے ایک چپت رسید کی تو وہ لڑکی دوپٹے کے نیچے سے جوتی نکال کر میرے قریب آگئی اور نیچے بیٹھ کر گود میں ہی جوتی رکھ کر مجھے پہنانے لگی میں نے کہا کیا کرتی ہو نیچے رکھ دو میں خود ہی پہن لونگی کہتی ناں بی بی مٹی گھٹے وچ خراب تھی ویسی کیڈی سوھنڑی جتی اے (کتنی خوبصورت جوتی ہے مٹی میں خراب ہو جائے گی) ان دنوں شفاف کرسٹل کی جوتیوں کا رواج چلا ہوا تھا سارا سٹرکچر کرسٹل کا اور اوپر ٹرانسپیرنٹ پلاسٹک لگا ہوتا جس پر بڑے بڑے نگ لگے ہوتے میں نے وہ جوتی ایبٹ آباد سے لی تھی اس میں پائوں بڑے خوبصورت لگتے تھے میں نے کہا تمہیں پسند ہے تو رکھ لو اس نے ایکدم بڑے اشتیاق سے جوتے میں پائوں ڈالا مگر اس کا آدھا پنجہ بھی آگے نہ جا سکا اس کی ماں کہنے لگی بی بی اے نازک جتیاں تہاڈے نازک پیراں واسطے ہوندن اساں ننگے پیر ٹرن آلے ساڈے تاں پیر پہوڑے تھی ویندن(بی بی یہ نازک جوتیاں آپ کے نازک پیروں میں اچھی لگتی ہیں ہمارے پائوں تو ننگے پائوں چل چل کے اتننے بڑے اور بھدے ہو جاتے ہیں )میر دل پر بڑا بوجھ پڑا ہم تو جوتیاں بھی شفاف پہنتے ہیں اور ان بے چاروں کو پینے کا پانی بھی شفاف نہیں ملتا (اس دن کے بعد سے میں نے وہ جوتی نہیں پہنی ج الماری صاف کرتے ہوئے نظر آئی تو وہ تمام واقعہ بھی یاد آ گیا)حالانکہ پانی سے بڑی نعمت کیا ہو گی۔

صاف پانی ان کا بنیادی حق ہے لیکن حکومتوں کی ترجیحات سڑکیں ہیں جن کو بلاک کر کے وہ مظاہرے کرتے ہیں اب تو شہروں میں بھی سیورج کے پانی ملا پانی پیتے ہیں لوگ اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں لوگ صاف پانی کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ادھر صاف پانی کے کئی پراجیکٹ شروع کیے گئے کئی مکمل بھی ہوئے جن پر صبح ہی سے قطاریں لگنا شروع ہو جاتی تھیں لیکن مشرف صاحب کے جانے کے بعد آہستہ آہستہ نہ صرف وہ سارے پروجیکٹ بند کر دیے گئے بلکہ وہ مشینیں ہی اکھاڑ لی گئیں کیونکہ اس کی جگہ فلٹرز کا کاروبار چلانا تھا جو ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہے اور لوگ آج بھی گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔

رحیم یارخان کے اکثر لوگ اس پانی کی وجہ سے کالے یرقان میں مبتلا ہیں وہاں پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھرمار ہے جن کے مالک کروڑوں کما رہے ہیں لیکن پانی کی کوئی فراہمی ممکن نہیں بناتا امیر لوگ تو منرل واٹر پی لیتے ہیں غریب کدھر جائیں حالانکہ ایک صاف پانی اور غیر ملاوٹ شدہ خوراک کی فراہمی ہی حکومت ممکن بنا دے تو ان ہسپتالوں کی ضرورت ہی نہ پڑے کاش یہ جونکوں بھرا پانی ان اہل اقتدار کو لٹا کر زبردستی پلایا جائے تاکہ ان کو پتہ چلے بنیادی ضروریات سے محرومی کا عذاب کیا ہوتا ہے میرے میاں نے اپنے ہر مزارعے کے گھر نلکا لگوا کر دیا اب تو خیر ہر گھر میں پمپ لگا ہے لیکن ہم ساری ابادی کے لیے تو نہیں کر سکتے یہ حکومتوں کے کرنے کے کام ہیں لیکن وہ ہر وہ کام کرتے ہیں جہاں سے انہیں کمیشن ملے!

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی