تحریر : وقار احمد اعوان ملک خداداد میں دیگر مسائل جہاں دگر گوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں وہاں حالیہ سی ایس ایس کے نتائج انتہائی مایو س کن ہیں کہ جن پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہو گی۔ ایک طرف ہمارے نوجوان جدید ٹیکنالوجی سے مکمل باخبرہونے کا بلند وبانگ دعویٰ کرتے ہیں تو ساتھ ہی انہیں ٹیکنالوجی کی ابجد سے بھی واقفیت حاصل نہیں۔ کیونکہ زیادہ تر امیدوار انگریزی کے پرچے میں فیل ہوئے ہیں۔ کیا یہی ہمارا معیار تعلیم ہے۔
سنٹرل سپیریئر سروسز (CSS) پاکستان بلاشبہ ملک کی بیوروکریسی میں داخل کرنے کی سب سے زیادہ مشکل اورمسابقتی امتحان ہے اور جس مقصد کے لئے پورے پاکستان سے امیدواروں کی بڑی تعدادکا اس امتحان میںشریک ہوناہے۔اس کے علاوہ اچھا کیریئر کے طور پر ان کی زندگی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں سی ایس ایس کا امتحان لاگو ہوتا ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑجاتاہے کہ امسال صرف 2 فیصد امیدوارہی کامیاب قرار پائے ہیں۔پورے ملک سے قریباً27000سے زائد امیدواروںنے حصہ لیا جس میں صرف 202امیدوار ہی کامیاب قرار پائے جس کی وجہ سے نتیجہ صرف 2فیصد ہی آپایا۔لیکن اب ان کے مختص انٹرویو پر انحصار کرتا ہے کہ کامیاب امیدوارآگے جاپاتے بھی ہیں کہ پھر فیل ہونے والوںکی طرح وہ بھی انٹرویو تک پہنچ پائے تھے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ امیدواروں میں سے صرف 2.09 فیصد ان تمام مضامین میں سے 50 فیصد کا مجموعی سکور حاصل کرنے کے قابل تھے جوکہ CSS کا بدترین نتیجہ ہے۔ماہرین کے مطابق موضوع کے گروہوں میں حالیہ تبدیلی کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن(ایف پی ایس سی)نے نئے مضامین متعارف کرائے ۔جس کے نتیجے میں 98فیصد امیدوار نئے مضامین میں ناکام رہے۔
حالانکہ ہر سال، کم از کم 350-450 امیدوارکامیاب قرارپاتے ہیں اور امسال اس کی شرح بڑھنے کی توقع ظاہرکی جارہی تھی۔اسی سلسلے ایم این اے رانا محمد حیات خان کے ہمراہ ایک اجلاس میں کابینہ سیکرٹریٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے حالیہ سی ایس ایس امتحان 2016 کے خراب نتائج پر غصے کا مظاہرہ کیاہے۔اورکہاہے کہ ملک کے اہم امتحان میں صرف 2.09 امیدواروں کا کامیاب ہونا قابل افسوس ہے۔کمیٹی کو یہ بھی بتایاگیا کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی بجائے نظام تعلیم پر تنقید کی جائے تاکہ پاس طالب علموں کی شرح میں اضافہ ہوسکے اور طالب علم شاندارنتائج میںامتحانات پاس کرنے کے قابل ہو جائیں۔اس کے لئے کمیٹی کوآنے والے دنوںکے لئے مضبوط قدم اٹھانے کی تجاویز بھی دی گئیں۔مزید برآںکمیٹی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کونتائج میں کمی کی اہم وجوہات کے لئے تلاش اور 30 دن کے اندر کمیٹی کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔اس کے علاوہ کمیٹی نے (این سی اے)کے نیشنل کالج کی کارکردگی کو سراہا اور این سی اے کی انتظامیہ سے گذارش کی کہ دیگر شہروں میں اپنے نیٹ ورک کو وسعت دینے کی بھرپور کوشش کرے۔
CSS Exam
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کے اتنے اہم امتحان میں صرف 2 فیصد امیدوارہی کامیاب ہوسکے۔ملک کی اتنی بڑی آبادی جس کے لئے سرکاری اور خاص طورسے پرائیویٹ یونیورسٹیز کی بھرمار ہے ،جہاں طالب علموں کے لئے جدید دور کی ہر آسائش بہم موجود ہے۔جہاں ہر طالب علم کو ہر پل اور ہرگھڑی کی خبر ہے،جہاں طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ اپنے جذبات اور احساسات سیکنڈز میں شیئرکرسکتاہے وہاں ایسے نتائج افسوس کا مقام ہے۔لیکن ”بلی تھیلے سے باہر آنکلی ہے”۔ملک میں سرکاری تو سرکاری پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز کے بلند وبانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔جہاں والدین اور طالب علموںسے لاکھوںروپے فیس وصول کی گئیں وہاں ان کی پول بھی قدرت نے کھول کے رکھ دی ہے۔ان اداروںکا معیار تعلیم کیا ہوتا ہوگا وہ سب کے سامنے آچکا ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ مذکورہ اداروں میں سے لاکھوں کی تعدادمیں سی ایس ایس افسران نکلتے ،اس بات میں بھی کوئی شک نہیںکہ ملک کے چند نامور اداروںسے ہر سال سی ایس ایس کے امتحان میں طلباء کامیاب ہوکر آتے رہے ہیں لیکن ہر سال شرح بڑھنے کی بجائے کم ہونا مایوس اور حیران کن ہے۔
ایک طرف حکومتی سطح پر سرکاری یونیورسٹیز میں اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں تاکہ ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوںسے خاطرخواہ استفادہ حاصل کیا جاسکے مگرا س کے برعکس سرکاری یونیورسٹیز سے تعلیم مکمل کرنے والے طلباء صرف جلد کام ملنے کی تگ ودو میںنظرآتے ہیں۔اور شاید یہی کچھ وجہ رہی ہو کہ ہر سال انتہائی اہم امتحان میںاتنے کم امیدواروںکامیاب ہورہے ہیں۔اس سے نئے طلباء میں کتنی مایوسی پھیل چکی ہوگی یہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔کیونکہ قریباً ہردوسرے تیسرے طالب علم کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ سی ایس ایس کے امتحان میںکامیاب ہوکر ملک وقوم کی صحیح معنوںمیں خدمت کرسکے۔لیکن ایسے نتائج دیکھ کر طلباء کی اکثریت مایوسی کا شکار ہوسکتی ہے لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ طلباء ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر مزید محنت کریں اور آئندہ سال مذکورہ شرح سے تعداد بڑھ جائے اس لئے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔مگر حالیہ نتائج تو ضرور ہمیں کچھ بتلا رہے ہیں،جیسے ملک خداداد کے ہر گلی کوچے کے سکولز ،کالجز اور خاص طورسے یونیورسٹیز کہ جن سے پڑھ کر طالب علم سیکھتے ویکھتے کچھ نہیں البتہ ان کا وقت ضرور ضائع ہوجاتاہے۔ ایک وقت تھا جب ملک میں سرکاری اور چندپرائیویٹ ادارے تعلیم کے میدان میں ملک وقوم کی خدمت میں مصروف نظرآتے تھے لیکن اب جدھر دیکھو اس طرف سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیز کی بھرمار ہے۔جس طرف دیکھو سیل لگی ہوئی ہے ،پہلے پہل پرائیویٹ سکول مالکان سرٹیفیکیٹ بانٹنے پھرتے تھے اب ان کی جگہ یونیورسٹیز نے لی ہے بس فیس جمع کی اور ڈگری آپ کے ہاتھ میں۔ملک بھرمیں اس وقت سینکڑوں کالجز اور یونیورسٹیزموجود ہیں جو کہ اس گھنائونے کاروبار میں مصروف ہیں۔
جہاں ملک کے نوجوانوںکے مستقبل کی بولی لگائی جاتی ہے انہیں اونے پونے بیچا جاتاہے اور جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔حالانکہ کئی بار حکومتی سطح پر ایسے اداروں کے خلاف کاروائی بھی کی گئی مگر عوام بے چاری کیا کرے وہ تو بس ڈگری اور نوکری حاصل کرنے کے چکر میں ایسے اداروںکے چنگل میں پھنس جاتی ہے ۔کئی بار الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاپر بھی ایسے اداروں بارے عوا م کو آگاہ کیا گیا مگر عوام بھلا کہاں سمجھنے والی ہے۔والدین کی جانب سے لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں،بچوںکی جانب سے بھڑکیا ں چھوڑ ی جارہی ہوتی ہیں کہ امسال ہمارا بچہ یا بچی سی ایس ایس کا امتحان دینے جارہاہے لیکن ”کھوداپہاڑ نکلا چوہا”۔۔نتیجہ والدین بے چارے سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے بچے جن اداروںسے پڑھ کر امتحان کی تیاری کررہے ہوتے ہیں وہاں صرف فیس لی جاتی ہے باقی انہیں کچھ پڑھایا سمجھایا نہیں جاتا ، ایسے اداروں میں پڑھانے والے یقینا پروفیسر ہوتے ہونگے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان پروفیسر ز میں سی ایس ایس کے آفیسر کتنے ہیں؟کیونکہ پروفیسر تو صوبائی امتحان جوکہ ایک پرچے پر مشتمل ہوتا ہے پاس کرکے آتا ہے اورپھر ترقی کرتے کرتے گریڈ 19یا 20تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پڑھانے والا اپنے مضمون کا ماہر مانا جاتاہوگا مگر اسے وہ تمام گر حاصل نہیں ہوتے ہونگے جوکہ کسی بھی سی ایس ایس امتحان کے پاس کرنے کے لئے چاہیے ہوتے ہیں۔البتہ ملک میں چند ادارے ایسے بھی ہیں جن میں باقاعدہ سی ایس ایس افسران طلباء کو تربیت دے رہے ہیں۔اور شاید انہی چند اداروںمیںسے کچھ سو طلباء کامیاب ہوکر آئے ہوں کیونکہ ایسے اداروںسے تربیت لینے والے طلباء سی ایس ایس امتحان کی وہ تمام ٹیکنیکس سیکھ لیتے ہیں جوکہ انہیں امتحان کی کامیابی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ وفاقی بشمول صوبائی حکومت ایسے تمام نان پروفیشنلز اداروںکوفی الفور بند کروائے جوکہ لاکھوںروپے لے کر بھی طلباء کو سیدھا راستہ نہیںدکھاتے۔تاکہ ملک وقوم کا ضائع ہونے والا پیسہ بچایا جا سکے۔