تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان اگر ڈی این اے ماہرین حیاتیات کے علمی و تحقیقی قضایا میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، تو اعصابی خلیہ ماہرین علم الاعصاب کے نزدیک نہ صرف کلیدی حیثیت کا حامل ہے بلکہ ایک حقیقی اور افسانوی کردار کی عظمت اور کشش کا حامل بھی ہے۔ ماہرین نفسیات اور اعصاب کی دلچسپی اور کوششوں کا یہ عالم ہے کہ اس پر تحقیق کا باب ابھی تک بند نہیں ہوا ہے اس کو جتنا ابھی تک جانا گیا ہے اس سے بڑھ کر مزید جاننا باقی ہے۔انسان کے دیگر تمام اعضا کے بر عکس یہ سب سے زیادہ پر کشش ،قابل توجہ اور شوخ مزاج خلیہ ہے جو اس کے افعال، اطوار و عادات دیکھتا ہے،معنی کے ایک جہان طلسم میں کھو جاتا ہے۔ پھرانسان کی پیدائش اور اس کی اصل جاننے کا لامتناعی سفر انسان کو جہان آب وگل میں دوبارہ قدم رکھنے نہیں دیتا۔ نیوٹرینو جس طرح ماہرین طبعیات کے ہاتھ نہیں لگتا اور سیسہ کی پلائی ہوئی لاکھوں میل موٹی دیوار میں آسانی سے گذر جاتا ہے بعینہ اعصابی خلیہ دماغ میں موجود ہونے کے باوجود آپنی تماتر سرگرمیوں کاحتمی پتہ نہیں بتاتا کیونکہ دماغ کا مجموعی نظام انتہائی پچیدہ ہے،مگر اس کا معلوم کردار دلچسپی سے خالی بھی نہیں،کیونکہ کلچر کا صحیح معنوں میں یہ نمائندہ بھی ہے،کلچر اور اعصابی خلیہ آپس میں لازم وملزوم بھی ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ کلچر اعصابی خلیے کے بغیر پیدا ہو سکتا ہے اور کلچر کے بغیر یہ آپنی شناخت قائم رکھ سکتا ہے۔دماغ کے اگلے حصے میں عصبی نظام کا بنیادی عنصرجو ریت کے ایک ذرے کی مانند جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔
جبکہ دماغ میں١٠٠ بلین نیورونز کا پتہ لگایا جا چکا ہے او ر ان کے درمیان ایک بلین سنگم یا مقام اتصال ہوتے ہیں،جو اعصابی خلیہ یا نیورونز کے پیغام کو مختلف جنکشنوں کے ذریعے پورے دماغ میں بھیجتے ہیں اور اس طرح اعصابی خلیہ باہر سے جو بھی معلومات نقل کرتا ہے دماغ کے ہر حصے میں پہنچ جاتی ہیں۔اس کو انگریزی میں mirror neuronsکا نام دیا گیا ہے۔اعصابی خلیہ انسانی دماغ میں ایک ایسا خلیہ ہے کہ جب بھی انسان یا حیو ان سے کوئی عمل سر زد ہوتا ہے یا ایسا عمل کرتے ہوئے وہ مشاہدہ کرتا ہے تو وہ رد عمل کے اظہار میں فائر کرتا ہے۔مرر نیورونز دوسروں کے عمل کی نقل کرتا ہے اور ساتھ ساتھ آپنے عمل پر بھی نظر رکھتا ہے، دوسروں کے عمل پر رد عمل کر کے پیغامات دماغ کے مختلف خانوں میں پہنچاتا ہے بلکہ پیشگی صورتحال کا ادراک بھی کرتا ہے۔پیغامات کی ترسیل اور ان پر رد عمل کا اظہار برقی رو اور کیمیائی اشاروں کی مدد سے ہوتا ہے۔
ایسے نیو رونز نہ صرف آج کے انسانوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ لاکھوں سال قبل کے بن مانسوں اور دیگر جانوروں میں بھی موجود تھے لیکن بن مانسوں کے دماغوں میں پائے جانے والے اعصابی خلیے دیگر جانداروں کے خلیوں سے اس لیے مختلف تھے اور ہیں کہ دیگر جاندار معروض دنیا کا جبلی احساس رکھتے ہیں اور انسانی خلیہ صرف نقل نہیں اتارتا بلکہ کلچر بھی تخلیق کرتا ہے ۔بقول اسٹیفن ہاکنگ ہم انٹر نیٹ پر اعصابی خلیوں کی طرح آپس میں جڑے ہوئے باتیں کر رہے ہیںجیسے دماغ میںاعصابی خلیے آپس میں ایک دوسرے تک پیغام رسانی میں مشغول ہیں۔ ،،بنیادی طور پر کمپیوٹر انسانی دماغ کی ہی نقل ہے،جو مصنوعی ذہانت کا شاہکار ہے۔ بلکہ بات کو یوں کہا جائے کہ انٹر نیٹ پر انسان نہیں بلکہ اعصابی خلیے آپس میں باتیں کر رہے ہیں تو بات زیادہ بامعنی ہو گی۔ اعصابی خلیہ صرف سوچتا نہیں بلکہ نقل بھی کرتا ہے،مگر پہلے سے معلوم صورتحال کا ادراک بھی کرتا ہے جو انسانی دماغ میں پہلے سے ذخیرہ ہوتی ہیں اس کا بنیادی کام معلومات حاصل کر کے جسمانی اعضا کو رد عمل کے لئے فوری تیار کرنا ہوتا ھے۔
جیسی صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہے ایسا ہی رد عمل کرتا ہے۔جذبات کے اظہار اور رد عمل میںاقدار و روایات اور انسانی نفسیات کا خیال رکھتا ہے۔یعنی خوشی اور غم میںیہ ایک دوسرے کے برابر شریک ہوتا ہے،دوسروں کے جذبات و احساسات ،چہرہ شناسی ،ہاتھوں کی حرکت ،پسند و نا پسند ا ور زبان کی ادائیگی پر مسلسل عمل اور رد عمل کا اظہا ر فائر کر کے کرتا ہے ۔ صورتحال پر کنٹرول کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ زبان کی تخلیق بھی اس سے منسلک ہے مگر حتمی طور پر کہا نہیں جا سکتا کہ زبان کی تخلیق میں اس کا کردار حتمی ہے یا جزوی،مگر دماغ میں زبان کاحصہ جو broca s area کہلاتا ہے کیساتھ پیغام رسانی کا براہ راست تعلق بھی قائم رکھتا ہے ۔ماہرین کا اختلاف اس امر پر ہے کہ زبان سماجی تعاملات کے ذریعے پروان چڑھی یا حیاتیاتی ارتقا کا نتیجہ ہے ۔ نیورونز بن مانسوں میں بھی موجود ہیں مگر وہ آپنے جذبات کا انسانوں کی طرح اظہار کیوں نہیں کر سکتے ۔۔زبان دماغ کے اندر vocalization system کے ذریعے ارتقا پذیر ہوئی یا جسمانی حرکات اور اشاروں کے ذریعے،دوسرا بڑا سوال معیاری زبان کیvocal equipment کے بغیر کوئی اہمیت نہیں۔بعض کے نزدیک جذبات کے اظہار کے لئے ز بان کا صوتی حصہvocal equipment کی ترقی سے الفاظ کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہوا،جذباتی کا ل سے زبان کے ظہور کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔تمام جانوروں کے دماغ میں vocal system موجود ہے مگر انسان کا زبان کا یہ سسٹم دوسروں سے مختلف ہے۔
زبان کے بغیر کلچر پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پچیدہ خیالات کی ترسیل ممکن ہے۔اگر انسان کے موجودہ ذ ہن کی نشو نما پچیس لاکھ سال پہلے مکمل ہو چکی تھی تو چالیس ہزار سال پہلے اس نے ابتدائی کلچر کی بنیاد کیوں رکھی ۔چوبیس لاکھ سال وہ کیا کرتا رہا۔پھر گذشتہ چالیس ہزار سالوں کے ابتدائی کلچر کے نمونوں کے بعد پچھلے دس ہزار سالوں کے درمیانی عرصہ میں بھی اس نے کیوں کوئی قابل ذکر ارتقائی جست نہیں لگائی۔انسانی زبان کی نشو ونما کا مسئلہ ابھی تک بھول بھلیوں کا شکار ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اعصابی خلیوں کا زبان کی ترقی و نشو ونما میں بنیادی کردار ہے۔
خیال،الفاظ اور صوتی آہنگ اعصابی خلیے اور زبان کے سسٹم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں،مگر ان کے آپس میں باہمی رشتے کی ارتقائی تاریخ کا معاملہ ایک معمی سے کم نہیں ۔نوم چومسکی کے نزدیک اعصابی خلیوں میں ہر طرح کے احساسات وجذبات کو سمجھنے اور اظہار کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور زبان کی ترقی کا مرحلہ وار سلسلہ دماغ کی نشو ونما سے منسلک ہے۔،، ا نسانی دماغ میں یہ ایک حساس خلیہ ہے،بیماری اور نشے میں اسکی کار کردگی متاثر ہوتی ہے۔ ، جنسی تسکین میں تقویت حاصل کرتا ہے ،بلکہ پری موٹر کار فیکس جہاں اس کی موجودگی اور افزائش ہوتی ہے وہاں اس کی نشو نما بڑھ جاتی ہے ۔ذہنی صحت اور اعصابی خلیے کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے بلکہ ذ ہن اعصابی خلیے کا دوسرا نام ہے اس لئے کہ دماغ کے تمام افعال اس کے مرہون منت ہیں۔انسانی جسم میں اس سے زیادہ پر کشش،دلفریب،شرارتی و افسانوی کوئی دوسری شے نہیں۔دنیا بھر کے انسان اعصابی خلیوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
Brain and Nerve Cells
ایلن ووڈزسالمیاتی حیاتیات کی تحقیق کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ دو ٹانگوں والا بن مانس اس دنیا میں گذشتہ پچاس لاکھ سالوں سے موجود ہے،جب یہ درختوں سے اتر کر زمین پر چلنا شروع ہوا،اسوقت اس کا دماغ چھوٹا تھا،چلتا دوڑتا تھا مگر تعمیر و تخلیق کی بنیادی شرائط و عوامل اور طریقہ کار سے نا بلد تھا۔کیونکہ دماغ کا سائز ٤٠٠ مکعب سینٹی میٹر چھوٹا ہونے کی وجہ سے بن مانسوں کی زندگی گذارتا تھا ،جن کے بازو لمبے اور اور انگلیاں خمیدہ تھیں۔معیاری جستhomo habits کے ساتھ واقع ہوئی،جس کے مغز کاحجم ٦٠٠ مکعب سینٹی میٹر سے زیادہ تھا۔۔یعنی پچاس فیصد کا حیرت انگیز اضافہ۔۔اگلی پیش قدمیhomo erectusکے ساتھ ہوآئی،جس کے مغز کا حجم ٨٥٠ سے ١٠٠ مکعب سینٹی میٹر کے درمیان تھا۔،،، یہ تبدیلی ارتقائی مراحل طے کرنے کے نتیجے میں آئی اور دماغ کا سائز بڑھا ہوتا گیا،جوں جوں دماغ کا سائز بڑا ہوتا گیا ،یہ آپنی خوراک اور بقا کے لئے اوزار بھی بناتا گیا،جس طرح چمپینزی اور گوریلا کسی حد تک چھڑی اور پتھر پھنکنے کی مشق کرتے ہیں۔تین لاکھ سال پہلے انسان کے دماغ کا سائز موجودہ دماغ ١٥٠٠ سو مکعب سینٹی میٹر کے مقابلے میں ٧٠٠ مکعب سینٹی میٹر تھا۔
ماہرین رکازیات کی تحقیق کے مطابق اڑھائی لاکھ سال قبل اس نے آگ جلانا سیکھ لی تھی،شکار کرتا تھا،پتھر کے اوزار بناتا تھا،جبکہ چمپینزی اور گوریلا کے دماغ کا سائز ٤٠٠ مکعب سینٹی میٹر ہی رہا۔اڑھائی لاکھ کی تاریخی اور ارتقائی مسافت طے کرنے کے بعد گذشتہ چالیس ہزار سالوں میں اس کے دماغ نے جست لگائی،جب اس کا ذہن کا سائز موجودہ سائز ١٥٠٠ مکعب سینٹی میٹر کے برابر ہوا ،یعنی گزشتہ چالیس ھزار سالوں سے انسان کے دماغ کا سائز ایک جیسا چلا آرہا ہے،اس میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی،اس وقت اس نے آگ دھات،اوزار،کپڑے کا استعمال۔خوراک اکھٹی کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔اس کے اوزاروں میں پہلے کی بہ نسبت نکھار آگیا۔وی ۔ایس راما چندران جو ایک نیورالا جسٹ ہیں کی تحقیق کے مطابق موجودہ انسانی دماغ کا سائزپچیس لاکھ سال پہلے مکمل ہو گیا تھا جب وہ آگ جلاتا اور پتھر کے اوزار بناتا تھا مگر چالیس ہزار سال قبل اس نے کلچر اور ثقافت کی بنیادیں رکھیں،اس کا درمیانی عرصہ سکوت کا شکار رہا مگر مچھلی کانٹے ۔کلہاڑی،تیر ،نیزہ ،کھرپہ،سوئی وغیرہ بنانا اس نے سیکھ لیا تھا۔جنگل جانوروں سے بچنے کے لئے افراد گروہوں میں رہتے تھے۔غاروں میں اکھٹے سوتے تھے۔غار کے دہانے پر جانوروں کے حملے سے محفوظ رہنے کے لئے آگ روشن کرتے تھے۔یہ شکار کا عہد تھا،بڑے جانوروں کے شکار کے لئے گروہوں میں رہنا ضروری تھا۔جب انسان نے مزید ذہنی ترقی کی اور بہتر ہتھیار بنا لئے اور جانوروں کا شکار آسان ہو گیا تو بڑے گروہوں میں رہنا بھی ااس نے ترک کر دیا،اور بڑے جانوروں کے بر عکس چھوٹے جانوروں کے شکار پر اکتفا کر لیا۔گیا پانڈے آپنی تحقیق حیاتیاتی کلچرل ارتقا ،میں تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ بارہ ہزار سال پہلے عراق اور شام میں انسانوں نے شکار کے عہد سے نکل کر کھیتی باڑی کو آپنا ذریعہ روزگار بنایا۔ ،، اس وقت اس نے لوہے کے اوزار آگ کا استعمال،سبزیاں اگانے کا فن پالتو جانور پالنے کپڑا بننے اور رہنے کے لئے گھر بنانے شروع کر دیے تھے۔شکار ،گلہ بانی اور کاشتکاری کے سلسلے کا آغاز ہو چکا تھا انسان شکار کے عہد سے نکل کر ذرعی عہد میں داخل ہو گیا تھا۔تصویر اور نقاشی کے بنیادی نمونے بھی اس نے تیار کر لئے تھے ،فصلیں اور سبزیاں اگانے کے لئے سر سبز جگہوں اور پانی جہاں وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا ڈ ھیرے لگانے شروع کر دیے۔
اس وقت تک ملکیت پورے خاندان کی مشترک تصور کی جاتی تھی۔سارا خاندان اجتماعی طور پرکام کاج کرتا تھا۔کھیتی باڑی کے آغاز نے انسانی شعور کو ایک جست مزید آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کر دیے ،رسومات اور عقائد اور دیوتاوں کی پرستش شروع ہوئی۔پرستش کا سارا تصور خوف پر مبنی تھا۔آگ اورسورج کی پوجا کا تصوربے پناہ قوت میں پوشیدہ تھا۔گائے کی پوجا اس کی ذرخیزی اور خوراک کی فراہمی کی وجہ سے تھی۔سانپ کی پرستش اس کے زہر کی طاقت کی وجہ سے تھی۔انسانی عقل تجریدات کی ملکہ ہے وہ نئے نئے خدا گھڑتی گئی ،عقیدت اور خوف کی وجہ سے بادشاہوں اور حکمرانوں کی بھی پوجا کی جانے لگی۔انسانی عقل حیاتیاتی لحاظ سے ترقی پزیر ہو چکی تھی مگر شعور کی تحلیلی وحدت جو اشیا کے مابین ترکیبی وحدت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔عقیدت اور خوف غالب تھے۔ذرعی عہد کے درمیانی مدت میں بت تراشی اور مصوری کا آغاز ہوا۔جب اعصابی خلیہ مظہر پرستی تک محدود رہا۔تجزیاتی فکر پیدا نہیں ہوئی۔خوف اور عقیدت ذہن سے بت تراشتے رہے پچاس صدیاں پہلے کی معلوم تاریخ میں بھی انسانی عقل و فکر نے کوئی بڑی چھلانگ نہیں لگائی تھی اس نے ابھی تک ذرعی کلچر کی ہی بنیادیں استوار کی تھیں۔لیکن پتھر اور اینٹ کے استعمال پر قدرت حاصل کر لی تھی۔غاروں میں اکثر مکان تعمیر کرتا تھا،ہل پھال کے استعمال سے بخوبی آشنا تھا،جانوروں کی کھالوں کا استعمال کرتا تھا۔اس کی چربی خوراک ایندھن اور تیل کی جگہ استعمال ہوتی تھی۔ہڈیوں کے اوزار بناتا تھا۔بالوں سے کپڑے بنتا تھا ۔انتڑ یاں رسے اور دھاگے کی جگہ استعمال ہوتی تھیں۔کھیتی باڑی بنیادی ذرائع پیدا وار تھے۔آرٹ مجسمے بنانا سیکھ چکا تھا۔لوہے کے اوزار سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ایک بادشاہ کی دوسرے بادشاہ سے جنگ ہوتی تھی اور عوام مفت میں مارے جاتے تھے۔اخلاق اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ساڑے پانچ ہزار سال پہلے مصر دریائے نیل کے آس پاس ایک مضبو ط فرعان مصر کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔لوگوں کا انحصار کاشتکاری پر تھا اور یہ ذرخیز زمین کی کاشتکاری عوام اور بادشاہوں کی خاک بستگی اور وطن پرستی کا موجب بنی۔حکمران تبدیلی کے نام سے کانپتے تھے،اسی بنا پر حکمرانی نہ صرف موروثی تھی بلکہ مرے ہوئے بھی عہدوں کی درجہ بندی میں شامل تھے۔بادشاہوں فرعان مصر کی پرستش کی جاتی تھی۔کیونکہ پرستش حکمرانوں کو دوام بخشتی ہے اسی بنا پر مردے بھی عہدوں پر براجمان رہتے تھے۔اس عہد میں آرٹ اور علوم و فنون نے بہت ترقی کی بالخصوص مجسمہ سازی اور فن تعمیر،کیونک یہ کام بادشاہوں کی سر پرستی میں ہوتا تھا۔لیکن دریائے نیل کی نا قابل تغیر تبدیلی اور خوشحالی نے عوام الناس کو قدامت پرست بنا دیا تھا.٣٠ قبل مسیح میں رومیوں نے آخر کار مصر کو فتح کیا۔اہرام مصر اس عہد کے انسانی تخلیق کے شاہکار ہیں۔
مردوں کے جسموں کو کیمیاگری سے محفوظ کرنے کا فن علم کیمیا کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔پرستش،غلامی اور معبدوں کی پرستش اس عہد کی انسان سوز مثالیں ہیں۔ اسی طرح انڈیا میں دو بڑی موہن جوداڑو اور ہڑپہ تہذ یبیں تھیں٢٥٠٠ قبل مسیح میں ان کی آبادی ٦٠ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔انڈس ویلی کی یہ ترقی یافتہ تہذیب تھی،ذات پات کے نظام پر قائم تھی۔چھوٹی ذات کے ساتھ مظالم روا رکھے جاتے تھے اور یہ لو گ غیر طبعی موت مر جاتے تھے،کیونکہ وسائل پر بڑی ذات کے لوگ قابض تھے۔اور عام طبقہ آپنے آپ کو پیدائشی طور پر حقیر سمجھتا تھا۔ان دو تہذیبوں کو آریاوں نے تباہ کیا۔ذات پات کے نظام کی وجہ سے تفریق عا م تھی۔استحصال کی بنیاد نسل پر قائم تھی۔بتوں کی پرستش توہم پرستی کو دعوت دیتی تھی۔ثقافتی اور نفسیاتی حتی کہ مذہبی ہندوانہ اقدار آج بھی ہندوستانی کلچر میں موجود ہیں۔نسل کی بنیا د پر طبقاتی تقسیم معاشرتی طبقاتی تقسیم سے زیادہ خطر ناک ہوتی ہے،کیونکہ معاشرتی طبقاتی تقسیم کبھی نہ کبھی ختم ہو جاتی ہے،اور نسلی درجہ بندی کا جھو ٹا استحصالی نظام آسانی سے ختم نہیں ہوتا۔اس پانچ صدیاں پرانی ہندوستانی تہذیب نے مصریوں کی طرح سنگ تراشی،مصوری میں دستگاہ حاصل کر لی تھی۔عقیدت،پرستش ،خوف اور غلامی کے نقوش ذہنوں پر ثبت تھے۔اسی طرح دس ہزار سال پہلے سمیری تہذیب دریائے دجلہ و فرات کے درمیان قائم تھی،اس عہد کی اجتماعی دانش میں ،آرٹ فن،تعمیر،باغبانی،سنگ تراشی،فن تحریر،رموز حکمرانی۔عقائد و نظریات دھاتوں کا استعمال اور ذرعی ترقی کے تمام نمونے موجود تھے۔بابل کے معلق با غات کا عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔نظریاتی لحاظ سے یہ مختلف معبدوں کی پرستش کا عہد تھا۔کھیتی باڑی کے اس عہد میں قباہلی اور چرواہی نظام برابر موجود تھے۔سمیری دور میں اجتماعی خاندانی نظام کا یقینا خاتمہ ہو چکا تھا،کیونکہ ملکیت کا تصور تقو یت پکڑ چکا تھا ،عورت اجتماعی ملکیت نہیں رہی تھی۔مادی ترقی،ذاتی مخنت وپیداوار نے موروثیت کے تصور کوتقویت پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا،پتھر اور شکار کے عہد سے انسان نکل کرذرعی عہد میں داخل ہو چکا تھا،دنیا کی یہ پہلی تہذیب ہے جس نے اظہار خیال کے لئے بارہ سو علامتی حروف تہجی تخلیق کر لئے تھے۔
Common Sense
سمیری تہذیب کی طرح بہت بعد میں چین میں سترہ سو قبل مسیح میں سنگ خاندان نے چھ سو سال حکومت کی شی ہنگ ٹی نے ١٥٠ قبل مسیخ میں پندرہ سومیل لمبی دیوار چین بنائی۔کنفیوسیش کی٥٥١ میںپیدائش ہوئی،جس نے اخلاق ،صلہ رحمی،میرٹ و ذہانت کی تعلیم دی،جس کی وجہ سے چین میں جاگیر داری کا خاتمہ ہوا اور میرٹ کی بنیاد پر افسر شاہانہ نظام قائم ہوا،اور حکومت اور اقتدار ایک خاص طبقے تک محدود ہو گئے،جس پر ٤٦١ دانشوروں نے بغاوت کی اور اس بغاوت پر ان کو قتل کر دیا گیا،ہر طرح کے خیال افروز لٹریچر پر مبنی کتب کو جلا دیا گیا۔مگر چینیوں نے لکھنے کا فن حاصل کر لیا تھا۔ایک عظیم تاریخی دیوار اور سڑکوں کی تعمیر کا نیٹ ورک بچھایا گیا۔تجربی سائنس میں چینیوں کی ابتدائی کا وشیں تہذ یبی ارتقامیں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں،چار ہزارسال پہلے انہوں نے شراب تیار کر لی تھی،تبخیر کے عمل سے آگاہ تھے۔بعد ازاں بارود،کاغذ،پرنٹنگ مشین، پیپرکرنسی چھتری،کپڑا دھات سازی میں ترقی کر کے انسانیت کو قرون وسظی میں داخل کرنے میں میںاہم کردر ادا کیا۔پانچ ہزار سال پہلے کا انسان عقل و تجربے کے عبوری دور میں داخل ہو چکا تھا،کنفیوسیش کی تعلیمات نے اخلاق ،و میرٹ کی تعلیم کے ذریعے جاگیرداری کاخاتمہ اور افسر شاہانہ نظام کی بنیاد رکھی،اور وہ روائیت آج تک موجود ہے جو جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیتی۔١٥٥٩ میں جب سونے اور چاندی کے حصول کے لئے ہسپانیوں نے لاطینی امریکہ میکسیکو و پیرو پر قبضہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ پتھروں کی عالیشان عمارتیں،پہاڑوں پر پیدل سفر کرنے کے لئے پگڈنڈیاں بنی ہوئی ہیں ،ہزار ہا سال پہلے وہاں کے باشندوں نے بہتریں فصلیں اگانا شروع کر دی تھیں ،موجودہ دنیا بھر میں ساٹھ اقسام کی سبزیاں اور پھل ان کے پیدا کردہ ہیں۔
تاریخی انسانی میں عقل کی بلوغت،تہذیب کے ارتقا اور علوم کی با قاعدہ بنیادیں اڑھائی ہزارر سال پہلے یونان میں پڑ گئی تھیں۔ علمائے سائنس کے نزدیک اڑھائی ملین سال پہلے انسان موجودہ شکل میں اس دنیا پر موجود تھا۔مگر علم کا سب سے بڑا دھماکہ یونان میں واقع ہوا،جس کی ارتعاش سے دو ہزار سال بعد یورپ کی آنکھ بیدار ہوئی ۔یونانیوں نے زبان،آرٹ کلچر،انفراسٹرکچر،قانون و حکومت، معاشرتی طبقات،مذہب وفلسفہ،حکمت و تجارت کے ذریعے مادی نقطہ نظرسے سوچنے اور عمل کرنے کی بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔قرون وسطی میں مسلمانوں نے یونانی علوم سے استفادہ ضرور کیا مگر تاریخ میں علمی جست ، تخلیقی اڑان اور او ریجنیلٹی نہیں پیدا کر سکے جو یونانی ا ور موجودہ مغربی دانش کا حصہ ہے۔ یونان کا علمی دھماکہ کئی صدیوں تک ان کے وطن تک محدود رہا مگر موجودہ حسی تہذیب کے دھماکے کی آواز نہ صرف کرہء ارض پر بلکہ دوسرے سیاروں تک پھیل گئی۔عقل و مشق کی بلوغت نے تکمیل و کلیت کی تمام راہیں ہموار کردیں۔علمائے سائنس کے نزدیک تہذیب و کلچر کی اولین شروعات یعنی چالیس ہزار سال کی مسافت کے بعد انسانی عقل تجربہ و مشق کی شکل میں اس مقام پر پہنچی ہے۔راما چندران جو ایک نیورالوجسٹ ہیں کی اعصابی خلیہ کے افعال و کردار اور ارتقا پر تحقیقی کام ستائش کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور علم الاعصاب کے شعبے میں بالخصوص٫٫اعصابی خلیے کا انسانی ارتقا میں اہم کردار،، پر ان کی تحقیقات دلچسپی سے خالی نہیں۔وہ انسان کے تہذیبی ارتقا میں نظریہ ارتقا کی نمائندگی کرتے ہیں ،جس میں انتخاب طبعی اور انسان کی جسمانی حرکت کو عقل کی ترقی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔کہتے ہیں٫٫جب ہم ایک خاص حد تک سیکھنے،نقل کرنے اور کلچر کو سمجھنے کی استعداد آپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں،تب وہ طبعی انتخاب کی استعداد جسمانی قوت کے ذریعے ہمارے ذہن کے اندرذہنی اوصاف پیدا کر لیتا ہے،جو ہمیں انسان بناتی ہیں،اور جب یہ عمل شروع ہوجاتا ہے تو یہ ایک خود کار عمل کے ذریعے نقطہء عروج پر پہنچ کر ہمارے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔،،آگے چل کر آپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ انسان تو موجودہ شکل میں اڑھائی لاکھ سال پہلے پہنچ چکا تھا مگر اس کے نقل اور تخلیق کرنے کا عہد صرف چالیس ہزار سال پہلے شروع ہوتا ہے۔
دو لاکھ سال تک اعصابی خلیہ تخلیق کرنے سے کیوں قاصر رہا اس کا جواب ابھی تک مل نہیں سکا۔کیونکہ انسان کا دماغ بن مانس کے دماغ ٤٠٠ مکعب سینٹی میٹر کے مقابلے میں ١٣٠٠ سی سی دو ملین سال پہلے پہنچ چکا تھا۔،ماہرین کہتے ہیں کہ ارتقا ہمیشہ آہستہ ہوتا ہے اس کے لئے کئی ملین سال بھی لگ سکتے ہیں،اور جب اس کا آغاز ہوتا ہے تو وہ دفعتا ہوتا ہے،پھر گذشتہ چالیس ہزار سالوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،انسانی کلچر کی ترقی بتدریج انتہائی سست روی کا شکار رہی چالیس ہزار سال کے بعد دوسری ترقی یافتہ تہذیب سمیری ہے جس کا نقطہ عروج پچھلے سات تا دس ہزار سالوں کے درمیان ہے پھر پانچ ہزار سالوں کے بعد یونانی تہذیب کا ارتقا میں وقفہ بہت کم رہاہے۔اس کے بعد موجودہ صنعتی ترقی کے عہد اور یونانی عہد میں صرف دو ہزار سال کی مسافت ہے۔ارتقا جب شروع ہوتا ہے تو تدریجا اس میں یکے بعد دیگرے تیزی کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ تیزی عبوری عہد کے بعد شروع ہوتی ہے اور آپنی آخری تکیمل کی مر حلہ پر انقلابی نہیں رہتا سستی روی کا شکار ہوجاتا ہے،مگر کبھی رکتا نہیں۔ارتقا طبعیی ہو یا معاشرتی وسماجی اس کا ایک ہی اصول ہے،تبدیلی کی طرف مسلسل گامزن رہنا۔ اینگلز کہتا ہے کہ انسانی عقل کا ارتقا اس کے افقی انداز میں چلنے سے ہو ا، جبکہ زمین پر رینگنے والے جانوروں کا ارتقا گزشتہ سو ملین سالوں سے نہیں ہو سکا۔کھڑا ہو کر چلنے کی قوت نے آدمی کو دونوں ہاتھوں کی مشقت کے لئے آزاد کر دیا۔اگر یہ ٹیڑھا رہتا تو اس کے ذہن کی نشو نما وہیں رکی رہتی،شروع شروع میں انسانوں کے بن مانسوں کی طرح دماغ چھوٹے چھوٹے تھے،لیکن کھڑ ے ہو کر چلنے سے اس کے دماغ میں اضافہ ہوتا گیا۔اڑھائی ملین سال پہلے اس نے چھوٹے پتھر کے ا وزار بنا لئے تھے۔محنت انسانی ترقی کی اولین شرط ہے۔ہاتھ کی محنت کے ارتقا کا تعلق پورے جسمانی ارتقا سے ہے۔ہمیں برملا کہنا پڑتا ہے کہ٫٫محنت نے انسان کو تخلیق کیا ہے،،بن مانس سے انسان تک پہنچنے کی تین بنیادی شرائط ہیں محنت،ذہانت اور گفتگو۔ماہرین رکازیات کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی دماغ کے سائز کے مطابق کلچرتخلیق ہوتا رہا۔
جب دماغ چھوٹا تھا تو وہ انتہائی سادہ چیزیں بناتا تھا اور اس کے دماغ کا سائز جب موجودہ ١٥٠٠ مکعب سینٹی میٹر تک پہنچا تو وہ پچیدہ چیزیں بنانے لگا۔اوزار وں کی مرحلہ وار تیاری سے اس کے ذہن کے سائز کا علم ہوتا تھا جب اوزار سادہ اور کم ترقی یافتہ تھے تو اس کے دماغ کا سائز بھی چھوٹا تھا ۔ایلن ووڈز کہتے ہیں کہ٫٫ ابتدائی انسان کا مغز چھوٹا تھا۔صرف ٤٠٠ مکعب سینٹی میٹر۔معیاری جست homo hablisکے ساتھ واقع ہوئی جس کے مغز کاحجم ٦٠٠ مکعب سینٹی میٹر تھا۔۔۔اگلی پیش قدمی homo erectusکے ساتھ واقع ہوئی جس کے دماغ کا حجم٨٥٠ سے ١١٠٠ مکعب سینٹی میٹر تھا۔،،انسان کے ذہن کے ارتقا اور حجم میں بنیادی چیز اس کا کھڑے ہو کر چلنے کا انداز تھا اس کے بعد محنت کے لئے ہاتھ آزاد ہوئے،دانش اور تجربہ محنت کے نتیجے میں پیدا ہوا اور زبان معاشرتی تعاملات کے ذریعے پیدا ہوئی۔دماغ کا سائز کم ہونے کی سے اعصابی خلیوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوتی تھی اور نقل و تخلیق کے لیے دماغ اتنا کام سر انجام نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بعض رینگنے والے جانوروں میں انسان کے دماغ کے بلین خلیوں کے مقابلے میں صرف چند ہزارخلیے ہوتے ہیں اسی طرح بندر کا دماغ عام جانوروں سے تین گنا بڑا اور انسان سے تین گنا چھوٹا ہوتا ہے۔۔انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان ایک بڑا فرق صرف یہ ہے کہ یہ اوزار بناتا ہے نقل کرتا ہے اور تخلیق کرتا ہے یہ ملکہ اس کو ایک طویل تاریخی عمل اور جسمانی محنت کے نتیجے میں ملا ہے۔ جبکہ ہمارے قریبی رشتہ دار بندر اور بن مانس کھڑے ہو کر چلنے سے محرومی کی بنا پر زبان کی ترسیل اور کلچر کی تخلیق سے محروم ہو گئے،اور ان کے دماغ کا حجم ہمارے دماغ کے سائز کے برابر نہیں ہو سکا۔
Professor Mohammad Hussain Chohan
تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان mh-chohan@hotmail.co.uk