تحریر : شیخ خالد ذاہد ہماری تہذیب تو اس بات کی اجازت نہیں دیتی مگر زمانے میں اب یہ ریت چل پڑی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے سماجی میڈیا پر اس کا چرچا ضرور کیا جاتا ہے۔ کسی کی پیدائش کی خبر تو سماجی میڈیا کے توسط سے تو اچھی لگتی ہے مگر کسی کا صفرِ آخرت پر گامزن ہونے کا سماجی میڈیا پر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ گھریلو جھگڑے بھی سماجی میڈیا کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی اب جو کچھ ہے وہ سماجی میڈیا پر موجود ہے۔ اب باتیں کسی کے اچھے یا برے لگنے سے بہت آگے نکل گئیں ہیں، اب تو بس شائع کرنا مقصد ہے کسی کی دل آذاری ہو یا پھر کسی کے دل کو خوشی ملے، شائع کرنے والے کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتا، وہ تو بس شائع کر کے سماجی ذمہ داری پوری کرنے کا حق ادا کرتا ہے۔
لگتا کچھ یوں ہے کہ ہم لوگ “بھانڈ” سے ہوتے چلے جا رہے ہیں، شور مچامچا کر لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں۔ بات بات پر ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے ہیں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ان تمام معاملات میں سماجی میڈیا کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے ذرائع سے اپنے مخصوص منشور کا پرچار ہورہا ہے۔ لوگ اب سمجھنے کیلئے وقت نہیں نکالتے بلکہ کسی مسلئہ کو “فیس بک” پر اتنا شائع کیا جاتا ہے کہ آپ کچھ ہی دیر میں سمجھ جاتے ہیں کہ کیا مسلئہ درپیش ہے۔ سماجی میڈیا پر کسی بھی خبر کا اس قدر شور شرابا ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ کچھ ہو کر ہی رہے گا، مگر جب آپ اسکرین سے نظر ہٹائیں اور کسی سے بات کریں تو یکسر ماحول بدل جاتا ہے اور بات کرنے والا کوئی ایسی بات کرتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جس بات کا واویلہ سماجی میڈیا پر مچا ہوا ہے اس کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اصل بات تو یہ ہے جو کہ بات کرنے والا کر رہا ہے۔
سماجی میڈیا کا اتنا فائدہ تو ہمیں دارِفانی سے کوچ کرنے کا ہوگا کہ ہمارے موت کی خبر پر دعاؤں کا ایک سلسلہ چلتا رہے گا۔ مگر ہم مسلمانوں کیلئے ہمارے پیارے نبی ﷺ سے بڑھ کر کوئی ہستی نہیں، آپ ﷺ پر ہمارا سب کچھ ہماری اولاد ہمارے والدین قربان۔ ان قربانیوں کی صرف ایک وجہ لکھونگا اور وہ یہ کہ آج جس دنیا میں ہر طرح کی آسائش کہ مزے لے رہے ہیں وہ میرے آقا محمدِ مصطفیٰﷺ کی بدولت ہی میسر ہے۔۔
ALLAH
میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کی سیرت پر لکھنے کیلئے قلم نہیں اٹھایا اس کی وجہ یہ قطعی نہیں کہ لکھ نہیں سکتا تھا مگر نا کبھی دل نے اجازت دی اور نا کبھی ذہن نے آمادگی ظاہر کی۔ میں اپنی اوقات سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔مگر اتنا ہمیشہ یاد رکھتا ہوں کہ “میں تو امتی ہوں” ایک ایسی ہستی ﷺ کا کہ جو وجہ کائنات ہیں جنکی وجہ سے رب کائنات نے اتنی خوبصورت دنیا سجائی ہے۔ دنیا کہ بہت بڑے بڑے مفکروں، اسکالروں اور مذہبی پیشواؤں نے ہمارے نبی ﷺ کی شخصیت کو لے کر اپنی عقیدت اور عملی ضابطہ اخلاق کو اپنانے کا درس اپنے لوگوں میں عام کیا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا کی کسی شے سے کوئی خوف نہیں۔
ہمیں بطور ایک قوم بلکہ بطور امت اپنے سپریم رہنما ﷺ کی بقاء کیلئے ایک گرج دار آواز میں دنیا کو پیغام دینا چاہئے کہ ہم بہت کچھ برداشت کر تے آرہے ہیں مگر اپنے پیارے نبی ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کو برداشت نہیں کرینگے۔ ایک ذرہ برابر ایمان رکھنے والا مسلمان بھی اس بات پر ایک آواز میں دنیا کو بتائے کہ ہمیں ایسی کسی سہولت یا تفریح کی قطعی ضرورت نہیں جس کا مول ہم اپنے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی صورت میں ادا کریں ہم تمام قسم کی سماجی ویب سائٹس کا استعمال کرنے والوں کو اس طرح سے پیغام دیں کہ انہیں یقین ہوجائے کہ واقعی ہم وہی “امتی” ہیں جنکی بخشش کیلئے ہمارے پیارے نبی ﷺ زاروقطار روتے رہے اور امتی امتی کہتے رہے”۔
ہمیں دنیا کے دوسرے مذاہب پر ایمان رکھنے والوں کو باآور کرانا پڑے گا کہ وہ ہمیں کچھ بھی کہیں ہمارے ساتھ جو کرنا ہے کریں مگر ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نا کریں کیوں کہ پھر ہم انتہا پسند ہوجائینگے جو آپ لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا۔ مگر ہم پر لازم ہے کہ دنیا پر اپنا ایسا تاثر چھوڑیں کہ انہیں یقین ہوجائے کہ یہ واقعی ایک ایسے نبی ﷺ کہ امتی ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے رحمت العالمین بنا کر رہتی دنیا تک کیلئے اور ہر پیدا ہونے والے انسان کیلئے بھیجا۔ ہمیں اب دھیان سے چلنا ہوگا اور یہ یاد رکھنا ہوگا کہ “میں تو امتی ہوں شاہ امم کا”۔