تحریر : قادر خان نجی چینل کے ایک اینکرنے میڈیا میں ایک نئی روایت ڈالنے کی کوشش کی ۔ یقین کیجئے کہ پروگرام دیکھنے کے بعد اس بات کا یقین نہیں ہوتا تھا کہ موصوف کے نزدیک سے بھی تہذیب و اخلاق قریب سے ہو کر گذری ہوگی ۔ سوشل میڈیا میں جب آئوٹ آف کیمرہ ان کی غیر اخلاقی حرکتیں وائرل ہوئیں تو اسے ہم نے ایک چینل سے دوسرے چینل میں جانے کا غصہ سمجھ کر نظر انداز کیا کہ ان کی “لیاقت ” اور شہرت کو برداشت نہیں کیا گیا اور صحافتی اقدار کو نظر انداز کرکے وہ حصے بھی نشر کردیئے گئے جو پروگرام سے علاوہ ذاتی نوعیت کے تھے ۔ تاہم جب ایک اور معروف نجی نیوز چینل نے انہیں پر کشش مراعات دیکر جوائنگ دی تو انھوں نے اپنی خصلت کے عملی مظاہرے میں رمضان المبارک کے پروگرام کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ اس پر صرف +18لکھا ہونا چاہیے تھا ۔ تاہم ہمارے معاشرے میں لالچ و عجلت قدرے زیادہ ہے ، پروگرام کے معیار کو نظر انداز کرکے ریٹنگ کیلئے سب کچھ ویسا ہی چلتا رہا ۔ نجی چینل پر پابندیاں لگیں تو موصوف نے پھر قلابازی کھائی اور ایک دوسرے میڈیا ہائوس میں جا گھسے ، رمضان المبارک کے پروگرام کے سیٹ میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس میں فرقہ وارانہ رنگ واضح ہو ۔ مسلمانوں کیلئے تو سب ہی صحابہ و آئمہ اکرام رضوان اللہ اجمعین محترم و واجب احترام ہیں ، لیکن موصوف کا سیٹ فرقہ واریت کا ایک خاص رنگ پیش کررہا تھا ، یہاں بھی ہماری عوام کی لالچ و انعامات کی لالچ نے موصوف کے وارے نچھاور کئے گئے۔
موصوف توہین صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مرتکب ہوئے ، لیکن حکومت نے میڈیا ہاوس کا اینکر سمجھ کر تمام تر شکایات کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ کیونکہ ہماری صحافی برادری بد قسمتی سے ایسے میڈیا پرسن کا احتساب نہیں کرتی جو ، دیگر صحافیوں کی قدر و منزلت کو گرانے کا سبب بنتے ہیں ، ایسا ہی چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ موصوف ڈاکٹر صاحب نے کہہ دیا کہ متنازعہ ناچ گانوں کا پروگرام ، رمضان المبارک کا پروگرام نہیں ہے۔ یہ ایک انٹر ٹینمنٹ پروگرام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر چھلانگ لگائی اور لعنت بھیجنے والے چینل کو مزید مراعات کے ساتھ جوائن کرلیا ۔ اس رمضان المبارک میں تمام اخلاقی حدود کو جس طرح پا مال کیا ، اس کی کوئی حد نہیں تھی ۔ پاکستان میں نمبر ون کی دوڑ میں ڈاکٹر صاحب نے جدید ساز و سامان سے لیس ایک ایسے چینل کو جوائن کرلیا جو بڑی تگ و دو اور صحافی تنظیموں کی جانب سے مسلسل احتجاج کے بعد کہ صحافی محنت کشوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے ، پرانے چینل اینکرز پرسن کو تو لے رہے ہیں لیکن فیلڈ ورکر اور ٹیکنشن اسٹاف کو واپس نہیں لے رہے تھے ، بول نیٹ ورک سے تمام تر تحفظات کے باوجود بلا امتیاز ہر صحافی نے اپنی صحافی بررادری کیلئے اس چینل کی کھل کر حمایت کی ، پریس کلبز میں خاص طور پر مہمات میں صحافی برادری کے مسائل اجاگر کئے گئے۔
سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی دستخظی مہم کے ذریعے اظہار یک جہتی کیا۔ بول چینل کے اونر کی رہائی کے بعد بول چینل کو ٹیسٹ ٹیلی کاسٹ کی اجازت بھی مل گئی جو آہستہ آہستہ ریگولر ٹرانسمیشن میں تبدیل ہوگئی ۔ سینکڑوں کارکنان کے روزگار بحال ہوئے۔ لیکن اُن اینکرز نے چینل کو دوبارہ جوائن کرنے میں احتیاط برتی یا پھر چینل نے دوبارہ نہیں لیا ۔کچھ یقینی نہیں کہا جا سکتا ، لیکن ڈاکٹر لیاقت حسین نے ایک پروگرام “ایسا نہیں چلے گا “سے دوبارہ اپنی ادارے سے وابستگی تبدیل کی اور پھر اس پروگرام میں وہ کچھ سننے کو ملا ، جو تحریک انصاف کے جلسوں میں اُن کے قائدین کے لب و لہجے میں بھی سننے کو نہیں ملتا تھا ۔ پروگرام قطعی طور پر صحافتی اقدار کی پامالی کو لئے اور پاکستان کی بد نامی کا سبب بن رہا تھا ۔ ایسا نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کوئی ایک مرتبہ ایسا ہوا ہو ، لیکن پروگرام کا فارمیٹ ہی ایسا بنایا گیا تھا کہ جتنے معروف اینکرز ہیں انھیں پہلے ایسی تنقید کا نشانہ بنایا جائے تاکہ جواباََ وہ بھی موصوف پر اور ان کے چینل کے خلاف وہی لب و لیجہ استعمال کریں ۔ لیکن ان کے منصوبے ناکام ہوئے ۔ ذاتی طور پر میں نے تو یہ پروگرام دیکھنا ہی بند کردیا۔
Pakistan Political Parties
ایم کیو ایم ، تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے جلسوں کی تقاریر سننے سے توبہ کرلی تھی کہ ان کی تقاریر کا اثر ہماری تحاریر میں بھی آسکتا ہے ۔ اس لئے کان بند کرکے ان سنی کو ہی ترجیح دی ، عدالت کے باہر میڈیا عدالت پر اعتراض اٹھایا ، لیکن کسی جماعت نے اعلی عدلیہ کی ہدایات پر عمل نہیں کیا ،یہی کچھ ڈاکٹر لیاقت حسین صاحب کرتے رہے ، بھارتی اداکار اوم پوری کی موت پر تو انھوں نے حد کردی کہ یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کیا گیا ۔ جھوٹ اور لفاظی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ، اس کو درست سمجھتا ہوں ، اوم پوری کے بعد بھارتی میڈیا نے کیا کہا ہوگا یا نہیں کہا ہوگا ، اپنے تئیں یہ اتنے مقبول ہوگئے کہ بھارت کو صرف موصوف ہی نظر آتے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی بھارتی اینکر غلطی سے پاکستانی چینل میں آکر بیٹھ گیا ہو ، وہی لب و لیجہ ،وہی بد تمیزی، وہی جھوٹ کے پلندے ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔موصوف نے سیاسی میدان میں ایک بار پھر آنے کی کوشش بھی کی22اگست کی کراچی پریس کلب میں لندن والے کی متنازعہ ترین تقریر کا دفاع کرنے کا کوئی ان کا اپنا رہنمادفاع کرنے کو تیار نہیں تھا کہ جیو نیوز پر لندن والے کے خود ساختہ رہنما بن کر سب سے پہلے انہی صاحب نے عجیب و غریب وضاحت دیکر واضح داغ پر شرمندہ ہونے کے بجائے پاکستانی قوم کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ جیسے داغ تو اچھے ہوتے ہیں ۔ جس پر ان کے خلاف بھی مختلف مقدمات درج ہوگئے۔
گرفتاری و ضمانت کا نہ ہونا تو صرف غریب کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کھلے عام میڈیا میں آتے رہے اور ایسا نہیں چلے گا کے نام پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ، جس کا جو نتیجہ نکلا ، وہ اب بول نیٹ ورک کی انتظامیہ کے سامنے ہے۔اب صحافتی تنظیموں نے اس اقدام کا دفاع کرے کے بجائے مذمت کا رویہ اپنایا ہے ۔ جو اس بات کا اظہار ہے کہ صحافتی تنظیموں نے ماضی سے سبق سیکھا، پیپمرا نے ایکشن لیا اور ایک اہم حکم جاری کر ہی ڈالا ۔ اب پروگرام ایسا کیا، ویسا بھی نہیں چلے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو چوڑیاں ڈال کر کونسا چینل دوبارہ اپنی گود میں بیٹھاتا ہے۔ سیاست میں بد زبانی ، بد کلامی اور بنا ثبوت الزامات کی روایات کے باوا آدم تحریک انصاف کا بھی یہی رویہ رہا ہے کہ انھوں نے کبھی سیاسی بالغویت کا مظاہرہ نہیں کیا اور مخالفین کے کپڑے اتارنے کیلئے سب سے پہلے اخلاقیات کا جنازہ نکالا ، اس سے پہلے سیاست میں عدم برداشت ایم کیو ایم کا خاصہ رہی ہے ، ان کی رائے سے اختلاف کرنے والے صحافی کا مستقبل تو پاکستان میں محفوظ ہی نہیں رہتا تھا ، یہاں تک کہ جان بھی محفوظ نہیں رہنے لگی ۔ مجھے اچھی طرح یاد کہ” جسمین منظور کے حوالے سے لندن والے نے جب رابطہ کمیٹی کو کہا کہ ایسے سمجھائو ، کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا خواہ مخواہ میڈیا میں آکر ٹسوئے بہا رہی ہے ، یہ تو سب سے بڑی منافق ہے۔ “شرم نام کو نہیں ہے”۔ پھر حیدر عباس رضوی ، فیصل سبزواری کو ذمے داری دی گئی کہ اس سے ملو اور ایسے سمجھائو ۔ تحریک انصاف نے لفاظی میں تشدد و بد اخلاقی کو ترویج دی ، پاکستان مسلم لیگ ن کے شہباز شریف جذباتی ہوجاتے تھے لیکن نواز شریف سمیت اکثریت مسلم لیگوں کی ایسی نہیں دیکھی تھی کہ دیکھا دیکھی ، انھوں نے بھی وہی لب و لہجہ اختیار کرلیا ، سوشل میڈیا کے اس قدر بے ہودہ استعمال کیا گیا کہ بھینسا گروپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
ان کی سیاسی عدم برداشت اس قدر بڑھتی چلی گئی کہ پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ گالی ، گھونسے ، لاتیں چل پڑیں اور پوری دنیا میں پاکستانی اسمبلی میں عدم برداشت کا جو پیغام گیا اس نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ۔اخلاقی حدود و قیود میں اس بات کا خیال ہمارے معاشرے کا جیسے حصہ بنتا چلا گیا کہ ہمارے نیوز چینل ، چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو اس قدر گھٹیا طریقے سے دیکھانے لگے کہ جیسے کسی ایک کا ریپ نہیں پورے معاشرے کا ریپ ہوا ہو ۔یہاں تک کہ ایک بچی کی ماں تڑپ اٹھی کہ ایک درندے نے اس کی بچی کی زندگی برباد کردی ، میڈیا نے پورے خاندان کی زندگی برباد کرڈالی ۔ ہمارا رویہ با حیثیت صحافی ذمے دارانہ نہیں رہا ہے ، ہم نے اپنے اداروں میں ایسے افراد کو بھرتی کرلیا ہے جو دیکھنے میں پرکشش لگتے ہوں ، انھیں صحافت کا کتنا ادارک ہے ، اس بعض میڈیا ہاوسز کو کوئی ادارک نہیں۔ شخصی خوب صورت ، صحافتی خوب صورتی پر غالب آگئی ، برقی ذرائع ابلاغ نے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ پرنٹ میڈیا میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں ، جنھیں من پسند گروپ بنا کر مالکان کو بلیک میل کرنے کا گُر آتا ہے۔ ایسا کیوں چل رہا ہے ایسا نہیں چلنا چاہیے۔