کرنسی نوٹ کی کہانی

Currency Notes

Currency Notes

تحریر: سید فیضان رضا
بارٹر سسٹم کے بارے میں ہم سب ہی جانتے ہیں جس میں چیزوں کے بدلے چیزیں خریدی جاتی تھیں۔ پرانے زمانوں میں عموماً سونے کو خریداری کے لیے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ سونا پوری دنیا میں دستیاب تھا۔اگر کوئی شخص دنیا کے ایک کنارے سے یہ کرنسی یعنی سونا لے کر نکلتا تھا تو دنیا کے دوسرے کنارے تک یہ متبادل قابلِ قبول ہوتا تھا اور اُس کو کسی منی ایکسچینجر کو ڈھونڈنے ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ خریداری آسان اور قابلِ بھروسہ تھی۔ آپ پوری صدی بھی اس کرنسی کو زمین میں دُبا کر رکھتے پھر بھی اس کرنسی کی قیمت نہیں گرتی تھی اور اس کے مستعمل نہ رہنے کا ڈر بھی دامن گیر نہیں رہتا تھا۔ پھر یہ پائیدار معاشی نظام ردی کے موجودہ نام نہاد کرنسی کاغذوں سے کیوں بدل دیا گیا؟

دلچسپ کہانی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے! اس کے لیے پہلے ہم کرنسی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی ٹائم مشین کے ذریعے اُس زمانے میں چلے جاتے ہیں جہاں سونے اور اشرفیوں کو بطور کرنسی استعمال کیا جا رہا تھا۔ یہاں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اور لوگ ایک مربوط نظام کے ذریعے تجارت کر رہے ہیں جس میں بدعنوانی کم سے کم درجے پر ہے۔اس معاشرے کے ایک نسبتاً قابلِ اعتبار شخص نے دوکان کھولی جس کا نام اس نے ”بینک” رکھا۔اس نے لوگوں سے کہا کہ تم سونا چاندی کے سکے لے کر پھرتے ہو جس کے باعث تمہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات لوٹ لیے جاتے ہو۔ لہذٰا ایسا کرو کے تم اپنا سونا لا کر میرے پاس رکھوا دو میں تمہیں اتنے سونے کی ہی رسید جاری کر دیتا ہوں۔ تم ان رسیدوں پر تجارت کر لو جیسے ہی کسی کو سونے کی ضرورت پڑے وہ مجھے رسید لا کر دکھا دے اور اُتنی ہی مقدار میں سونا مجھ سے لے جائے۔ گویا تم اگر سو اشرفیاں مجھے دیتے ہو تو میں تمہیں سو اشرفیوں کی رسید کاٹ دیتا ہوں۔

Gold Coins

Gold Coins

یہ آفر کافی حد تک پر کشش تھی ، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لوگوں نے اپنا سونا اور اشرفیاں اس دوکان یعنی بینک میں جمع کروانا شروع کر دیں اور بینک کے مالک نے ان کو ایک رسید دینا شروع کر دی جس کے اوپر درج تھا ”حاملِ ہذٰا کو مطالبہ پر ادا کرے گا” مطلب جس کو جب اپنا سونا لینا ہو وہ یہ رسید دکھا دے اور اپنا سونا لے جائے، ہماری دوکان اس رسید کے حامل شخص کو سونا فراہم کرنے کی پابند ہوگی۔ یہ سلسلہ چل پڑا لوگوں نے جوک در جوک اپنی اشرفیا ں اور سونا اس دوکان میں جمع کروا کر رسیدیں لینا شروع کر دیں۔اس کا سونا یوں ہی محفوظ پڑا رہتا ، حسبِ ضرورت وہ آکر رسید دکھاتا اور اپنا سونا لے جاتا۔ پھر یوں ہوا کہ مارکیٹ میں سونا چاندی کے بجائے رسیدیں چلنا شروع ہو گئیں۔ لوگ تجارت کی غرض سے وہ رسید پکڑاتے کہ فلاں دوکان میں میرا سونا پڑا ہے آپ یہ رسید دکھا کر سونا لے لیں۔ وہ شخص اِس دوکان پر آتا اور رسید کے مطابق سونا لے کر چلا جاتا۔ پھر یوں ہوا کہ لوگوں کو اس دوکان پر اتنا اعتبار ہو گیا کہ اُنہوں نے سونے کا مطالبہ کرنا ہی چھوڑ دیا اور رسید ہی تجارت در تجارت استعمال ہونے لگ گئی۔ بات یہاں سے بگڑنا شروع ہوئی۔

اگر بینک میں ہزار اشرفیاں ہیں اور مارکیٹ میں ہزار رسیدیں ہی چل رہی ہیں تو معاملہ ٹھیک تھا۔مگر جب بینک نے دیکھا کہ لوگ تو سونا لینے آہی نہیں رہے اور اپنی تمام تر تجارت ہماری دی ہوئی رسیدوں پر ہی کر رہے ہیں تو اُن کی نیت میں فتور آگیا۔ انہوں نے سو اشرفیوں پر ہزار رسیدیں مارکیٹ میں چلادیں۔ یہ نو سو رسیدیں جعلی تھیں اور ان کے متبادل سونا بینک میں موجود نہیں تھا مگر لوگ رسید لے کر بینک کا رُخ ہی نہیں کر رہے تھے اس لیے بینک کو کوئی مسلہ ہی نہیں ہوا۔ پھر یوں ہوا کے اُس بینکر نے وہ سو رسیدوں کا سونا بھی غائب کردیا۔ گویا اب اُن ہزار رسیدوں کے پیچھے سرے سے سونا تھا ہی نہیں مگر مارکیٹ میں وہ رسیدیں برابر چل رہی تھیں۔ یوں بینکنگ کے اس فرسودہ اور لوٹ مار کے نظام نے اپنا جنم لیا۔

American Bank

American Bank

اٹھارویں صدی کی آخری دہائیوں میں بہت سے پرائیویٹ امریکی بینک اسی طرز پر کام کر رہے تھے۔ وہ لوگوں کا سونا لیتے اور اُن کو ایک رسید جاری کر دیتے تھے۔ لوگ تجارت کے لیے عارضی طور پر اس رسید کا استعمال کرتے اور ضرورت پڑنے پر ان بینکوں سے جا کر سونا نکلوا لیتے۔ یہ سلسلہ اس قدر جڑ پکڑتا گیا کہ آج کے کرنسی نوٹ اِن ہی بینکوں کی جاری کردہ رسیدیں ہیں۔ اگر سب لوگ یہ رسیدیں بینک لے کر پہنچ جائیں اور اپنے سونے کا مطالبہ کر دیں تو ان کو پتہ لگے گا کہ وہ لُٹ چکے ہیں اور بینک اپنے آپ کو دیوالیہ ڈکلیر کر کے خود کلیر ہو جائے گا۔بعدازاں ” بینک آف انگلینڈ” نے بھی امریکی بینکوں کی تقلید میں سونے کے سکوں کے عوض ایک رسید جاری کی جس نام ”پائونڈ” رکھا گیا۔اسے Gold Backed کرنسی کہا گیا کیوں کہ اس کے پیچھے متبادل کے طور پر سونا رکھا گیا تھا۔ یہ نظام یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ اس میں صہیونیوں نے اپنے شاطر اور سفلی دماغ سے سود کی آمیزش بھی کردی۔ بینکوں کے پاس جب سونا جمع ہونا شروع ہوا تو انہوں نے اپنی دولت کو مزید بڑھانے کی غرض سے قرض دینا شروع کر دیا۔

یہ قرض بھی ان ہی رسیدوں کی صورت میں دیا جاتا تھا جس کا بندوبست کرنا ان بینکوں کے لیے کوئی مسلہ ہی نہ تھا۔ حتیٰ کہ ان بینکوں نے اپنی ہی جاری کردہ ان رسیدوں کو امانتاً اپنے پاس رکھنا شروع کر دیا اور اس کے لیے بھی لوگوں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر گھیر لیا۔اس سب کے باوجود ہر مہینے امریکہ کے پندرہ سولہ بینک دیوالیہ ہو رہے تھے اور لوگوں کا بھروسہ بینکنگ نظام سے اُٹھ رہا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ امریکہ کے کچھ پرائیویٹ بینکوں نے مل کر ایک مشترکہ بینک بنایا جس کا نام ”فیڈرل ریزرو” رکھا گیا ۔اور آپ کے لیے حیران کُن بات یہ ہوگی کہ امریکہ کی کرنسی جاری کرنے والا یہی مشترکہ بینک ہے جس کو چلانے والے چند یہودی ہیں۔گویاامریکہ کی معیشت اس وقت بھی صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے۔فیڈرل ریزرو کے تاریخی حقائق بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ (کرنسی نوٹ کی مزید کہانی اور بینکنک کے تشویش ناک نظام کو جاننے کے لیے اس کالم کا دوسرا حصہ ضرور پڑھیے)

Syed Faizan Raza

Syed Faizan Raza

تحریر: سید فیضان رضا
faizanshah.raza@gmail.com
03457227990

Euros

Euros