کیا آنکھوں پر بندھی پٹّی کھلا چاتہی ہے!

Elections

Elections

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی

حالیہ ضمنی انتخابات میں نتائج کے اعتبار سے اترپردیش، راجستھان اور گجرات قابل تذکرہ ہیں ۔وہیں مغربی بنگال اس لحاظ سے قابل توجہ بنا کہ ملک کی بااقتدار سیاسی پارٹی بی جے پی کو ریاست میں 15سال بعد ایک بار پھر اپنا کھاتہ کھولنا کا موقع ملا ہے۔اترپردیش میں کل 11میں سے 7+1سیٹوں پر سماج وادی پارٹی کامیاب ہوئی، وہیں بی جے پی کوصرف 4سیٹیں حاصل ہوسکیں ۔راجستھان میں کانگریس کو 3اوربی جے پی کو 1سیٹ ملی۔وہیں ریاست گجرات جہاں ایک طویل عرصہ سے کانگریس بری طرح شکست سے دوچار تھی ، اس مرتبہ 3سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔

دیکھا جائے تو بااقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے بقول جو ملک کی حکومت چلا تے ہوئے ،عوام کے لیے بے پناہ خدمات انجام دے رہی ہے، “سب کا ساتھ ،سب کا وکاس” نعرے کے ساتھ ،سب کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہے،کے تمام دعوں کے باوجود نتائج نے کامیابی کے بجائے ناکامی کا ہی سامنا کرایا ہے۔درحقیقت ناکامی نے سوچنے کے موقع بھی فراہم کیے ہوں گے ۔ وہیں سماج کو منتشر کرنے والوں اورنفرت کی آگ بھڑکانے والو ں کو صدمہ بھی پہنچا ہے۔دوسری طرف نتائج نے امن پسند حلقوں میں خوشی کی ایک خاموش لہر پیدا کی ہے نیز ایک بار پھر ان تمام سیاسی پارٹیوں کوحوصلہ فراہم کیا ہے جو گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بری طرح ناکامی کے سبب مایوسی سے دوچار تھیں۔

ضمنی انتخابات نے خصوصاًایک بار پھر کانگریس میں جان ڈال دی ہے۔ہریانہ اور مہاراشٹر میں ہونے والے انتخابات میں کارکنوں کے حوصلہ بلند ہوئے ہیں وہیں مودی حکومت کے 100دن مکمل ہونے پر ، ان کی کارکردگی کا احاطہ کرتے ہوئے16صفحات پر مشتمل “سیاہ کتاب”بھی کانگریس کی جانب سے منظر عام پر آئی ہے۔کتاب میں بی جے پی کے انتخابی نعروں پر طنز کرتے ہوئے مودی حکومت کو “کھوکھلے وعدوں والی ناکارہ حکومت”کا لقب دیا گیا ہے۔دوسری طرف بی جے پی کے اندر سے بھی ناقص کارکردگی اور نفرت آمیز مہم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ شتروگھن سنہا نے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی ناقص کارکردگی پر کہا کہ تجربہ کار لیڈروں کو درکنار کرنا بی جے پی اور آر ایس ایس کو مہنگاپڑ رہا ہے۔وہیں حکومت میں وزیرمینکا گاندھی نے اترپردیش میں پارٹی کی شکست کے بعد اپنے بیٹے کو اتارنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔

نفرت جس کا ایک چہرہ ہی آدیتہ ناتھ جیسے بی جے پی کے بے لگام قائد ہیں،اور انہیں قائدین کی قیادت میں اترپردیش میں بی جے پی کو ضمنی انتخابات میں زبردست ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔اس کے باوجود بی جے پی کے بے لگام ممبران پارلیمنٹ اپنی زبانوں پر لگام کسنے سے قاصر ہیں۔متھرا،اترپردیش سے بی جے پی کی ممبر پارلیمنٹ ہیما مالنی نے ورنداون میں بسی بیوائوں کو لے کر بھی ایک متنازعہ تبصرہ کر دیا ہے۔بقول ان کے بہار اور بنگال کی بیوائوں کو اپنی اپنی ریاستوں میں ہی رہنا چاہیے اور ورنداون میں آکر بھیڑ نہیں لگانی چاہیے

۔بہار اور بنگال کی بیوائوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ بیوائیں وہیں کیوں نہیں رہتیں؟وہاں بھی اچھے مندرہیں ۔توجہ فرمائے اس پس منظر میں کہ بیوہ جو ہندوسماج میں ایک اچھوت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ،اور اسی بیوا کا ایک زمانے میں ستی ہوجانا ہی بہتر حل سمجھا جاتا تھا۔آج اُس بیوہ کے دکھ درد میں شریک ہونے،سماج میں عزت کا مقام دلانے کی بجائے مزید ذلت سے دوچار کرنے کا عمل جاری ہے۔اور یہ سب ان لوگوں کی جانب سے ہو رہا ہے جو صرف نعروں ہی کے ذریعہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس چاہتے ہیںجبکہ ان کے قول و عمل میں بے تہاشہ تضاد موجود ہے۔

ضمنی انتخابات میں عوام کی جانب سے جہاں یہ واضح کر دیا گیا کہ صرف نعروں کی بنیاد پر امن قائم کرنے والے ہی دراصل فرقہ پرستی کے فروغ میں معاون بن رہے ہیں،لہذا ان کو دوبارہ اقتدارمیں نہ آنے دیا جائے ۔وہیںملک کے میڈیا کی حقیقت بھی سامنے آگئی ہے۔حقیقت کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ میڈیاجس کے ذمہ مثبت رائے ہموار کرنا، امن و امان کے قیام میں معاون و مددگار بننے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہی میڈیاآج ان دونوں محاظ پر ناکام نظر آرہاہے۔

Media

Media

یہ ناکامی دراصل کچھ لوگوں کی کامیابی ہے یا واقعی میڈیا کی ناکامی؟یہ وہ اہم سوال ہے جس پر چند لمحے ٹھہر کر میڈیا کے مالکان،میڈیا کے ذمہ داران، اور خود ان لوگوں کو غور و خوض کرنا چاہیے جو میڈیا سے کسی بھی سطح پر کہیں نہ کہیں وابستگی رکھتے ہیں۔واقعہ یہ ہے ملک کا میڈیا آج زیادہ تر وہی چیزیں دکھاتا ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔برخلاف اس کے میڈیا چینل کی جانب سے کرائے جانے والے ڈبیٹ اور ڈسکشنس میں وہ باتیں سننے کو ملتی ہیں جو نفرت کے فروغ میں معاون و مددگار بن رہی ہیں۔یہ ڈبیٹ کیوں کروائے جاتے ہیں؟ان میں مخصوص لوگوں کو ہی کیوں بلایا جاتا ہے؟اور ایک مخصوص قسم کے لوگوں کو کیوں نہیں بلایا جاتا ہے؟

کیا ملک کی راہنمائی ،اس کو چلانے اور مسائل کے حل چند مخصوص لوگوں کے پاس ہی ہیں؟یا دیگر افراد،گروہ،سماج کے سوچنے سمجھنے والے لوگ اور عوام بھی ان معاملات میں کوئی رائے رکھتے ہیں؟یہ وہ عمومی سوالات ہیں جس پر ہم سب کو سوچنا اور غور و فکر کرنا چاہیے۔یہ صحیح ہے کہ میڈیا پر بندشیں مناسب نہیں ہیں،اور چونکہ میڈیا رائے عامہ کے فروغ میں ایک اہم ترین کردار ادا کرنے والا ادارہ ہے۔ لہذاجب کبھی میڈیا پر پابندی کی بات اٹھتی ہے تو عوام و خواص سب مل کر میڈیا کے حق میں کھڑے نظر آتے ہیں۔لیکن افسوس وہی میڈیا جس کے حق میں بلا لحاظ مذہب و ملت، ملک کے تمام عوام ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں،عوام میں نفرت کے فروغ کو پروان چڑھا نے کا منفی کردار ادا کررہا ہے۔

یا د فرمائیں آج سے چھ سال قبل بٹلہ ہائوس انکاونٹر کا معاملہ ہمارے میڈیا ہی کے ذریعہ ملک کے ہر عام و خاص کے سامنے آیا تھا۔جس وقت یہ واقع رونما ہواتھا اس دن میڈیا کے تمام چینل یک زبان مختلف بے تکی رپورٹوں کو پیش کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں کوشاں تھے۔اور اس کے بعد جب یہ معاملہ عدالت میں گیا،عوام و خوص کے ذریعہ مختلف سوالات کھڑے کیے گئے،انکاونٹر کی عدالتی جانچ کی بات کی گئی، تو ہمارا میڈیا خاموش نظر آیا۔حقوق انسانی کی کارکن منیشا سیٹھی جو بٹلہ ہائوس انکاونٹر معاملہ کی حقیقت سامنے لانے میں کوشاں ہیں، کے مطابق بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی رپورٹ اور پولیس کی کہانی میں کئی تضادات سامنے آچکے ہیں۔ اس سلسلے میں مرکزی حقوق انسانی کمیشن کی رپورٹ سرسری ہے،اچھی طرح نہ تو عدالتی اور نہ ہی مجسٹریٹ انکوائری ہوئی ہے۔

انکوائری کے لیے ہر جگہ سے مطالبہ ہونے کے باوجود اس کی انکوائری نہ کیا جانا بے حد افسوسناک ہے۔مینشا کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دو کیس بنے تھے،ایک انسپکٹر موہن چند شرما کی موت اور دوسرے دہلی بلاسٹ کیسیز کے سلسلے میں،لیکن ساجد اور عاطف کی موت کے بارے میں اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا اور نہ ہی اس کی انکوائری ہوئی ہے۔انکوائری نہ ہونا ہی ایک بہت بڑا سوال کھڑا کرتا ہے۔وہیں دوسری جانب ملک غداری اور ملک میں دہشت گردی جیسے معاملات میں آٹھ آٹھ ،دس دس سال اور اس سے کچھ کم یا زیادہ وقت جیلوں میں گزارنے والے افراد جب با عزت بری ہوتے ہیں،تو کیا ہمارامیڈیا پکڑے جانے کے وقت جس قدر سرگرم تھا اس کا عشر عشیر ہی اُن کی باعزت بری کی خبر جلی یا خفی حرفوں میں سامنے لاتا ہے؟

اور آخری بات جو ضمنی انتخابات کے نتائج میں سامنے آئی ہے وہ یہ کہ ملک کے عوام نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کے دام میں زیادہ دن اور پھنسنے والے نہیں ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ حالیہ بہار کے ضمنی انتخابات اور آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کے لیڈر سشیل کمار مودی اب کہتے نظر آرہے ہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ پارٹی کا چہرہ نہیں ہیں،اور اگر بہار میں انہوں نے ویسی باتیں کہی ہوتیں،جیسی یوپی میں کہی ہیں تو میں ان کی زبردست مخالفت کرتا۔دوسری طرف ریاست گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اورملک کے وزیر اعظم بھی ایک پرائیوٹ نیوز چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کو محب وطن قرار دے رہے ہیںاور کہ رہے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے وطن کے لیے ہی جیتے ہیں اور اسی کے لیے مریں گے۔

ان دو بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ خواب خرگوش میں سونے والے نیند سے بیدار ہوا چاہتے ہیں۔لیکن یہ بیدار ی کتنے دن برقرار رہے گی،اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔وہیں ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے موجودہ بیان سے قبل اور کتنی مرتبہ ملک کے مسلمانوں کی حب الوطنی کے تعلق سے اپنے بیانات جاری کیے ہیں۔تحقیق کرنے والوں کو تحقیق کرنی چاہیے کہ کیا آج سے پہلے بھی یہ باتیں اُن کی جانب سے سامنے آئی ہیں؟اگر ہاں تو بہت خوب لیکن ،اگر نہیں تو کیا آج ملک کے وزیر اعظم کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلا چاہتی ہے ؟یا اس میں بھی کوئی دہری پالیسی اپنائی جا رہی ہے !

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com