دنیامیں سب سے آسان کوئی چیز ہے تو وہ نفرت کی آگ بھڑکانہ ہے۔برخلاف اس کے محبت اور جذبہ خیر سگالی اور اخوت و ہمدردی کو پروان چڑھانا ایک دشوار ترین عمل ہے۔ اس کے باوجود دشوار گزار عمل پر قائم رہنے والوں کو عوام پسند کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر ہر شخص محبت کا بھوکا ہے اور نفرت کی بجائے محبت ہی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن دوسری جانب”خواص”جو تعداد میں بہت ہی کم ہوتے ہیں نفرت کی آگ بھڑکانے کے عمل میں داخل ہو جائیں تو ان کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ عوام کی پسند و ناپسند کو تہہ و بالا کرنا اور تغیر لانا آسان ہو جائے۔اور غالباً یہی خواص کاخاصہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کی موجودہ فکر اور طرز عمل میںتبدیلی اس انداز سے لائیں کہ لوگ خوداپنی ہی تبدیلی شدہ فکر و عمل میں کوئی بہت بڑافرق محسوس نہ کرسکیں۔
اب یہ تبدیلی چاہے مثبت ہو یا منفی! گزشتہ دنوںملک کے وزیر اعظم نے مختلف ریاستوں کے دورے کیے ۔جہاں انہوں نے مرکزی و ریاستی حکومت کے ذریعہ چلائے جانے والے پروجیکٹس کا افتتاح کیا۔ساتھ ہی جھارکھنڈ کے دورے کے دوران انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی کے وہ جھارکھنڈ کے لوگوں کے اس پیار اور لگائو کا مناسب معاوضہ اداکریں گے جس کے نتیجہ میں ان کی پارٹی کو پارلیمانی انتخابات میں مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے۔بھارت تارہ میدان میں مقامی باشندوں کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ یہاں کے باشندوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔
مزید کہا کہ اگر اس کے معدنیات اور قدرتی وسائل کو استعمام میں لایا جائے تو گجرات کا درجہ بھی اس کے بعد ہوگا۔اورچونکہ اب ریاست سن بلوغ کو پہنچ رہی ہے اور اس کے 18مکمل ہونے کو ہیں ،لہذا یہ ریاست کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ 18سال پورے ہونے پر جھارکھنڈ کو کیسا دیکھنا پسند کرتے ہیں؟دوسری جانب وزیر اعظم کے رانچی کے پروگرام میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کو ہوٹنگ کا سامنا کرنا پڑا۔سورین جیسے ہی بولنے کے لیے کھڑے ہوئے لوگ مودی-مودی کے نعرے لگانے لگے۔
درمیان میں کچھ لوگوں نے ریاستی حکومت مخالف نعرے بھی لگائے۔شور بڑھتا دیکھ کر اسٹیج پر بیٹھے وزیر اعظم نے ہاتھوں سے اشارہ کیا اور لوگوں کو پرسکون کرایا ۔اس کے بعد سورین اپنی تقریر مکمل کر سکے۔وزیر اعظم کی رخصتی کے بعد وزیر اعلیٰ نے میڈیاسے کہا کہ یہ وفاقی ڈھانچے پر چوٹ ہے۔انہوں کہا کہ ایک اہم اسٹیج پر جس طریقہ سے ایک جماعت کے لوگوں نے ہوٹنگ کی یہ سسٹم کے ساتھ استحصال ہے ساتھ ہی سرکاری اسٹیج پر سیاست کی جا رہی ہے۔
اس پورے مسئلہ پر جھارکھنڈ کی حکمراں پارٹی جھارکھنڈ مکتی مورچہ(جے ایم ایم)نے دھمکی دی کہ اگر پی ایم مودی معافی نہیں مانگیں گے تو مرکز کے کسی بھی وزیر کو جھارکھنڈ میں گھسنے نہیں دیا جائے گا۔بھٹاچاریہ نے مرکزی حکومت اور بی جے پی کے ہر پروگرام کی جھارکھنڈ میں مخالفت کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بی جے پی کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔ادھر کانگریسی لیڈر امبیکا سونی نے سورین کی ہوٹنگ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سرکاری اسٹیج کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہوٹنگ کسی کے لیے بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔مودی جہاں بولنے والے ہوں وہاں دس ہزار کی بھیڑ میں پانچ سو اپنے آدمی ہم بھی بھیج سکتے ہیں اور ان کے خلاف نعرے لگوا سکتے ہیں۔لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔وہیں وزراء اعلیٰ کی سرکاری اسٹیج پر ہوئی ہوٹنگ پر بولتے ہوئے این ڈی اے کے حلیف اور شری منی اکالی دل کے سپریموپرکاش سنگھ بادل کا کہنا ہے کہ یہ عمل غیر جمہوری ہے اور اخلاقی گراوٹ کا عکاس ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ہریانہ کے کیتھل میں بھی ایسا ہی واقعہ نیشنل ہائی وے کے سنگ بنیاد کے پروگرام میں جب بھوپیندر سنگھ ہڈا لوگوں سے خطاب کر رہے تھے اسی وقت مودی حامیوں نے ہڈا کی ہوٹنگ شروع کر دی تھی۔اس کے بعد ہڈا نے اعلان کیا کہ وہ اب کبھی بھی وزیر اعظم کے ساتھ پروگرام میں نہیں جائیں گے۔
جھارکھنڈ میں وزیر اعلیٰ کی ہوٹنگ سے قبل سورین کی پارٹی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ہڈا کے ساتھ ہوا “واقعہ”رانچی میں دوہرایا جانا نہیں چاہیے ورنہ اس کی رائے اچھی نہیں ہوگی۔جے ایم ایم کے سکریٹری جنرل سپریو بھٹا چاریہ نے وزیر اعظم کے نام لکھے اپنے خط کو میڈیا میں بھی جاری کیا تھا۔اس کے باوجود ملتا جلتا واقعہ رانچی میں بھی رونما ہوا۔اب سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے چاہنے والے کیا خود ہی وزیر اعظم کو بدنام کرنے کی سازش رچ رہے ہیں؟یا پھر وزیر اعظم کو یہ عمل پسند ہے،جس کی بنا پر یکے بعد دیگرے وہی عمل دہرایا جا تا جسے لوگ پسند نہیں کرتے؟
اس مخصوص واقع کے علاوہ ہندوستان میں فی الوقت دو باتیں اور تیزی سے گردش کر رہی ہیں۔ایک :”ہرہندوستانی ہندو ہے”،دوسرا:”لؤ جہاد”۔یہ دونوں باتیں کیا ہیں؟اور ان باتوں کے بیان کرنے کا مقصد کیا ہے؟اگر ان سوالوں پر غور کیا جائے تو جو بات پہلے مرحلے میں ہر شخص کے ذہن میں آسکتی ہے وہ یہ کہ یہ دونوں ہی باتیں انسانوں کو انسانوں سے دور کرنے کی ہیں۔پہلی بات جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہر ہندوستانی ہندو ہے،اور وہ بھی اس بنا پر کیونکہ وہ ہندوستان کا شہری ہے ،بے معنی بات ہے۔کیونکہ جس ملک اور دیش کی بات کی جاتی ہے اور جس دیش بھکتی کی باتیں زبانوں سے دہرائی جاتی ہیں ،اس ملک کا نام تو دراصل “بھارت،انڈیا اور ہندوستان”تینوں ہی ہیں۔
India
لہذا اس ملک کے رہنے والے یا تو ہندوستانی ہو سکتے ہیں،بھارتی ہو سکتے ہیں یا پھر انڈین۔ لیکن یہ تینوں ہی نام ملک سے وابستگی کو واضح کرتے ہیں ،ساتھ ہی ساتھ کسی حد تک اس ملک کے کلچر ، تہذیب اور ثقافت کے بھی عکاس ہیں۔اس کے باوجود نہ ملک اور نہ ملک کا ہر شہری ہی مذہبی بنیادوں پر خود کو “ہندو”کہلوانا پسند کرتے ہیں۔کیونکہ “ہندو”دراصل نام ہے اس فکر و عمل اور طرز زندگی کا جو دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں واضح فرق رونما کرتی ہے۔اسی لیے خود ہندواپنے مذہب کے خانے میں ہندو لکھواتے ہیں اور شہریت کے خانے میں بھارتی،ہندوستانی یا انڈین۔اور نہ ہی ان دیگر ممالک میں مذہب اور شہریت کے خانے میں یکساں اندراج ہوتا ہے ،جن کا تذکرہ کیا گیا یا کیا جاتا ہے۔
رہی بات “لؤ جہاد “کی۔تو یہ بات بھی دوریاں پیدا کرنے ہی کی ہے۔ہندوستانی قانون میں بلوغت کی عمر طے کردی گئی ہے۔نیز ہر بالغ اور عاقل شہری کو یہ قانونی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس مرد اور عورت کو اپنا شریک حیات بحیثیت شوہر اور بیوی پسند کرنا چاہے ،کر سکتا ہے۔پھر یہاں بھی جن باتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں نہ کوئی دم ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ۔لہذا اگر کوئی حقیقت کسی کے سامنے موجود ہو تو اس کے لیے اسی ملک کے قانون ساز اداروں نے اسے مکمل اختیارات بھی دیے ہیں کہ وہ حقیقت پیش کرے اور قانون کی روشنی میں فیصلہ حاصل کر لے ۔لیکن تذکرہ برائے نفرت ہو تو یہ خود ایک غیر قانونی عمل کہلائے گا!۔
ملک کے موجودہ حالات اور اس پورے پس منظر میں جہاں نفرت کی آگ بھڑکانے اورلوگوں پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کرنے میں ،افراد،گروہ اور مخصوص فکر و نظر کے حاملین منظم سعی و جہد میں مصروف ہیں۔اورجہاں دوریاں پیدا کی جا رہی ہوں یا واقعات اور کوششوں کے نتیجہ میں انسان ،انسانوں ہی کی جان و مال اور عزت و آبرو کو دائو پر لگانے کا کام کرنے لگیں۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ ایسے چند افراد بھی منظر عام پر آئیں جو منفی حالات کا مقابلہ آپسی بھائی چارے اورمحبت و اخوت کے ماحول کو پروان چڑھا کر دیں۔بلکہ اُن افراد کی بھی ضرورت ہے جن کے وجود کا مقصد ہی امن و امان کاقیام ہو اور جو ملک اور معاشرہ کو صحیح رخ دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔سوال یہ ہے کہ وہ کیا ممکنہ کام ہو سکتے ہیں جن کے فروغ سے نفرت کم ہوگی اور دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں؟اس میں سب سے پہلا عمل تو ان حضرات کا ہے۔
جو ناپسندیدہ واقعات کو صرف اس لیے بیان کرتے ہیں کہ واقعہ رونما ہو چکا ہے،لہذا اس کے بیان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غیر مناسب عمل۔اگر کوئی ناپسندیدہ واقعہ رونما ہوتا بھی ہے تو صرف ان متعلقہ افراد کو ہی اطلاع دی جانی چاہیے جو اس کے حل میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔دوسرے مرحلہ میں وہ تمام اعمال داخل ہیں جہاں انسانوں کو انسان سمجھا جائے۔انہیں ذات ،برادری اور مذہب و ملت میں تقسیم نہ کیا جائے۔اور جب ایک انسان اپنے پیشہ اور وسائل ِزندگی کے تغیر کے باوجودانسان ہی سمجھا جانے لگے تو اس کی عزت اور وقار کو ویسے ہی سر بلند رکھا جائے ،جیسی سربلندی اور عزت ہم اپنے لیے دوسروں سے چاہتے ہیں۔پھر انسانوں کے دکھ درد میں شامل ہونا،ان کے مسائل کے حل میں کوشاں ہونااور انہیں بلا تفریق مذہب و ملت،اپنے ہی جیسے انسان سمجھنا آسان ہو جائے گا۔حقیقت تو یہ ہے۔
دنیا کا پہلا انسانی جوڑا جواس پوری انسانی آبادی کے وجود کا ذریعہ ہے،وہ ایک ہی تھا۔اب اگر کسی کو تحقیق ہی کرنی ہے تو وہ تحقیق کرے کہ وہ پہلا انسانی جوڑاکس مذہب،ملت،ملک،فکر ونظر اور عقیدے کو ماننے والاتھا؟جن کی اولا آج ہم اور آپ ہیں۔لہذا انسانیت کی بنیاد پر اورایک ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے ہمیں اپنے ہر بھائی اور بہن کی خوشی اور غم میں شریک رہنا چاہیے۔اُس کی خوشیوں میں شامل ہوکر خوشیوں کو فروغ دینا چاہیے۔اور اُن کے غم ،دکھ اور درد میں شامل ہو کر ہلکان کی ہر سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔خصوصاً اُن حالات میں جبکہ نفرت کے فروغ ہی میں کچھ لوگ باقاعدہ مصروف ہوں۔ایسے حالا ت میں جہاں یہ ضروری ہے کہ نفرت پھیلانے والوں پر قانونی کارروائی کی جائے۔
وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مزید سنگین حالات پیدا ہوں سے قبل ہی منفی اثرات کو زائل کر نے کی مخلصانہ اور سنجیدہ ہر ممکن سعی و جہد کی جائے۔کیونکہ جن پودوں کی کاشت ہی گندے پانی میں ہوئی ہو ان سے اچھی فصل کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟برخلاف اس کے آج ایسی فصل پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جس کے استعمال سے نہ صرف انسان بلکہ دیگر مخلوقات بھی اطمینان و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com