تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔نسل نو میں انسانیت کی تعمیر کے لیے استاد کے کردار سے انکار ممکن نہیں ۔ ازل سے نظام تعلیم میں استاد کو اہم مقام حا صل رہا ہے۔ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی تعلیم وتربیت اس طرح کرتاہے جیسے ایک مالی باغ میںاپنے پودوں کی کرتا ہے۔ درس وتدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ استادکو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے۔
استاد کے بغیر کوئی بھی فرد کوئی کام اور علم نہیں سیکھ سکتا۔ والدین اپنی اولاد کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں جبکہ بچے کو استاد ہاتھ میں قلم پکڑنا سکھاتا ہے۔اسلامی معاشرہ میں استاد کی قدرو منزلت کا اندازہ فرمان نبیۖ سے کیا جا سکتا ہے “تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے پھر آگے دوسروں کو سکھائے”۔رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے ایک وہ جس کواللہ نے مال دیا پھر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تو فیق بخشی اور دوسرے وہ جسے اللہ نے علم و حکمت عطا فرمائی پھر وہ اس کے مطابق لوگوں کے فیصلے کرتا اور ان کو حکمت کی تعلیم دیتا ہے ”۔جس نے (دوسروں کو )نیکی کی کوئی بات بتائی تو اس پر عمل کر نے والے کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا”۔جوشخص علم کی طلب کے لیے گھرسے نکلتا ہے اُسے اللہ تعالی جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے”۔طالب علم کی رضا کے لئے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔آسمان و زمین کی ہر مخلوق عالم کے لئے اللہ سے بخشش کرتی ہے۔”عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو اتنی فضیلت حا صل ہے جتنی چودھویں رات کے چاند کو سارے ستاروں پر”۔حضرت محمدۖ کا ارشاد ہے کہ ” تمہارے دنیا میں تین باپ ہیں۔
ایک وہ جو تمہیں عدم سے وجود میں لے کر آیا ، ایک وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی ور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم سکھایا”۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ”جس شخص نے تمہیں اک لفظ بھی سکھا دیا ، وہ تمہارا استاد ہے”۔آپ ۖکے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا یہ ہر مسلمان کا کامل یقین ہے اس لئے آپۖکے بعد یہ مشن اساتذہ کے کندھوں پر ہے کہ وہ اُمت کی بہترین انداز میں رہنمائی کریں اور انہیں راہ حق سے نہ بھٹکنے دیںپیارے نبی ۖ کی تعلیمات کے مطابق نئی نسل کی تعلیم وتربیت کریں ۔موجودہ دور میں تعلیم کا شعبہ جب سے پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھ میں آیا ہے اس وقت سے استاد کاکردار وہ نہیں رہا جس کے بارے ہمارا دین اور پیارے نبی ۖ کے احکامات ہیںآج کل کے اکثر سکول ،کالجز،یونیورسٹیوں میں اساتذہ کا کردار قابل رحم ہو چکا ہے۔ پڑھنے والے اور پڑھانے والے سب اپنے اپنے فرائض کو بھول بیٹھے ہیں تعلیم ایک فیشن بن چکا ہے۔
پرائیویٹ سکولز ،کالجز میں اساتذہ کو خوبصورت اور دلکش لباس و انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس سے تعلیمی ادارے کسی ماڈلنگ ایجنسی کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں کسی بھی تعلیمی درسگاہ میں جب تک استاد کا عمل وکردار وہ نہیں ہوگا جس کی ضرورت اسلامی معاشرہ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اُس وقت تک شاگردوں سے بہتری کی توقع رکھنا اور معاشرے میں بہتر اور اچھی تربیت یافتہ نسل کی تیاری ناممکن ہے میرا یہاں مقصد صرف پرائیویٹ اداروں کی بُرائی کرنا نہیں لیکن میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اکثریتی پرائیویٹ ادارے بچوں کی تعلیم وتربیت سے زیادہ اساتذہ خاص طور خواتین اساتذہ کو دلکش وجدید انداز میں پیش کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ بچوں کو اعلی اور بہتر تعلیم دے رہے ہیں یہ ایک طویل بحث ہے جس میں ہر شخص اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتا نظر آئے گا ۔قارئین کرام !پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اچھی تعلیمی تربیت گاہیں موجود ہیں جو نئی نسل کی تعلیم وتربیت میں قابل تعریف کردارادا کر رہی ہیں ۔گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اوکاڑہ وہ ادارہ ہے جہاں سے ہزاروں کیا لاکھوں طالب علم آج تک فارغ والتحصیل ہوکر وطن عزیز کی تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اگر آج سے بیس سال پہلے کے گورنمنٹ کالج فار بوائزاوکاڑہ کو تصورمیں لایا جائے تو اُس وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہوگا کہ کئی ایکٹر پر پھیلا یہ ادارہ اپنے مثالی ڈسپلن ،اعلی تعلیمی ماحول ،خوبصورت نئی عمارت ،صفائی کی اچھی صورتحال ،چھ ہزار سے زائد طلبہ خاص طور طالبات کے لیے آئیڈیل تعلیمی ماحول کا مرکز بن جائے گا اس وقت گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اوکاڑہ میں بی ایس سی کی پانچ سو سے زائد طالبات زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہیں ،سال 2016میں پنجاب یونیورسٹی میں بی اے کے طالب علم منصورنے پہلی پوزیشن حاصل کی اسکے علاوہ بی ایس سی میں طالبات نے بھی اپنی تعلیمی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے یونیورسٹی میں نمایاں نمبر حاصل کیے جوکہ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اوکاڑہ کے اساتذہ اور خاص طور پر کالج کے پرنسپل پروفیسر ظفر علی ٹیپو کی انتھک محنتوں کا ثمر تھا سال 2012میں جب پروفیسر ظفر علی ٹیپو کو کالج کا پرنسپل بنایا گیا تو کالج میںسٹوڈنٹس یونین اور سیاسی جماعتوں کے مختلف ونگز پوری طرح سرگرم عمل تھے جس سے آئے روز کلاسوں کا بائیکاٹ معمول بن چکا تھا جس سے طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی رہتی تھیں پرنسپل ظفر علی ٹیپو نے اپنی اعلی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالج کے ماحول کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔
کالج میں تعلیمی ماحول کو مزید بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کالج کے وہ حصے جہاں گندگی اور کوڑا کرکٹ سالہا سال سے پڑا ہوا تھا وہاں پھولوں کی کیاریا ں بنوائیں کالج کے مختلف خالی حصوں میں طلبہ کے لیے خوبصورت گرائونڈز بنوانے کے ساتھ ساتھ اطراف میں پھولوں کی کیاریاں بنوائیں جن میں دلکش پھول کالج کے تعلیمی ماحول کو دوچند کرتے نظر آتے ہیں ۔قارئین کرام ! صاف ستھرے کلاس رومز تو بہت سے اداروں خاص طور پر پرائیویٹ کالجز میں نظر آتے ہیں لیکن گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج اوکاڑہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے گرائونڈز ،باتھ رومز بھی آئیڈیل صفائی کی صورتحال رکھتے ہیں ،یہ ہی نہیں کالج کے طلبہ نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی ڈویژن ساہیوال اور پنجاب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا اور انعامات حاصل کیے یہ سب کچھ ساٹھ سالہ کالج کی تاریخ کے سب سے اعلی اور بہتر منتظم پروفیسرظفر علی ٹیپو اور انکے اسٹاف کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کالج کے اساتذہ سب ہی قابل اور اپنے فرائض احسن انداز میں سرانجام دے رہے ہیں لیکن پروفیسرظفر علی ٹیپوکی ٹیم میں شامل چند ایک کا ذکر انتہائی ضروری ہے جن میں پروفیسر ریاض خان ،پروفیسر رائو اعجاز ،پروفیسر رضا اللہ حیدر ،پروفیسر نذر چوہدری ،پروفیسر کاشف مجید ،پروفیسر خالدجاوید مترو،پروفیسر اصغر ،پروفیسر محمدحامد ،وائس پرنسپل پروفیسر رشید ،پروفیسر طاہر پرویزاور خاص طور پر نوجوان پُرخلوص آفس اسسٹنٹ رانا نعمان خاں قابل ذکر ہیں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو حضرت محمد ۖکی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزارنے اور بچوں کو حصول تعلیم میں کامیاب کرے آمین۔