تحریر : نادیہ خان بلوچ انسان پہلے پہل سب سے الگ تھلگ غاروں میں رہتا تھا. اسکی زندگی صرف اسکی اپنی ذات تک محدود تھی. مگر جوں جوں وقت گزرا اسے زندہ رہنے کیلئے خوراک کے ساتھ ساتھ رشتوں کی بھی ضرورت پڑی. اس نے لوگوں سے ملنا شروع کیا یوں میل ملاپ سے تعلقات بڑھے اور خون کے رشتوں کے بعد ایک اور رشتے نے جنم لیا دوستی. مگر اس دوستی کو صرف تب ہی جائز سمجھا جاتا تھا جب ایک مرد کی مرد سے اور ایک عورت کی خالصتا ایک عورت سے. ورنہ دوسری صورت میں تو عورت کا مرد دوست یار اور مرد کی عورت دوست رکھیل جیسے القابات سے نوازی جاتی تھی. اور کسی معزز اور یا پھر کسی شریف زادے کیلئے اس سے بڑھ کے کوئی اور گالی ہو ہی نہیں سکتی تھی. جنس مخالف کی طرف دیکھنا بھی عشق معشوقی کے زمرے میں آتا تھا. مگر جوں جوں زمانہ آگے بڑھا ترقی کی اس کے ساتھ ساتھ لفظ دوستی کی تعریف میں بھی ردو بدل کرکے اسکا حلقہ احباب مرد مرد اور عورت عورت کی دوستی سے بڑھا کر چاچا زاد،ماموں زاد،خالہ زاد اور پھوپھی زاد کزنز تک پہنچ گیا اور یہ دوستی جائز بلکہ حق کہلانے لگی۔
اس دائرے میں جب تھوڑی گٹھن ہونے لگی تو یہ دائرہ مزید بڑا ہوگیا. اب کی بار اس میں روزمرہ کے واسطہ پڑنے والے لوگ جیسے کہ اساتذہ اکرام آفس میں کام کرنے والے خواتین و حضرات بھی شامل ہوگئے اور یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا. اور لفظ یار جو کبھی گالی تصور کیا جاتا تھا نئی نسل نے اپنی شرافت اور اعلی سوچ کا یقین دلاتے ہوئے اس گالی کو اپنی روزمرہ بول چال میں ایک پیار بھرے جملے کے طورپر استعمال کرنا شروع کردیا. اور دوستی میں مرد اور عورت کا فرق مٹا دیا. پرانی نسل کی طرح نئی نسل نے وفا کرنے رشتے بنا کے سنبھالنے اور انہیں قائم رکھنے کیلئے وقت کا ضیاع نہیں کیا. نہ کوئی پابندی لگائی بلکہ نہایت ادب و تمیز سے ہر رشتے کو ایک مخصوص وقت تک نبھایا اور جب ضرورت نہ رہی تو اعلان چھوڑ دیا۔
اس طریقے کار کو بھی نئی نسل نے خوش اسلوبی سے قبول کیا اسے اپنانے میں کوئی عار محسوس نہ کی بلکہ اسے بھی معاشی ترقی کی طرح کی ایک ترقی سمجھ لیا یعنی کہ جو چیز بیکار لگے یا پھر پرانی ہوجائے تو اسے بیچ کر نئی لائی جائے. یوں رشتے بنانے اور رشتے بنا کے توڑنا یہ سب ایک عام اور معمولی سی بات لگنے لگی. یہ سب دیکھ کر جب کچھ پرانی سوچ رکھنے والوں کو تکلیف ہوئی رشتوں کے تقدس کو پامال ہوتے دیکھا تو انہوں نے اعتراض کیا تب نئی نسل نے اپنے بڑوں کو اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا اور ان پہ پرانے خیالات کے مالک یعنی کہ بیک ورڈ کا ٹھپہ لگا کے ہمیشہ کیلئے خاموش کرنا چاہا. اور ظاہر کیا کہ وہ اپنا اچھا برا اچھی طرح جانتے ہیں لہذا انہیں اپنی زندگی میں کسی کی دخل اندازی گوارہ نہیں. آج اگر ایک 5 سال کا بھی بچہ ہے ناں تو وہ یہ ضرور جانتا ہوگا گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کیا ہے. اس موضوع پر بات کرنے کیلئے اسکے پاس بھی کافی کچھ ہوگا۔
College Friendship
جبکہ پہلے پہل تو اگر محلے میں بڑوں میں بھی ایسی کوئی بات ہوجاتی تو سب بچوں کو اس گھر سے بھی دور رکھا جاتا ہے. اب تو سکولوں کالجوں میں یہ لڑکا اور لڑکی کی دوستی انکا ایک حق سمجھی جاتی ہے. اگر انہیں اس سے روکا جائے تو انکے پاس فرار کے بہت سے طریقے موجود ہیں. اب تو شادی سے پہلے بھی شادی شدہ جیسے ریلیشن بنائے جاتے ہیں. جو کہ محبت کہلاتی ہے. اس محبت میں ہجر و وصال نہیں ہوتا کہ ہیر رانجھا کی طرح تا عمر اسکا سوگ منایا جائے یا پھر فقیری اختیار کرلی جائے بلکہ اسکے بعد بریک اپ اور پھر ایک نئی ریلیشن شپ. کچھ یہی وجہ ہے اب سسی پنوں،ہیر رانجھا،لیلی مجنوں جیسی سچی محبتیں ناپید ہوگئی ہیں. موجودہ نسل کسی بھی سرے سے قربانی دینے کیلئے تیار نہیں. پہلے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کے اپنے بچوں کو پڑھاتے تھے،انکی زندگی کا مقصد صرف خاندان کی عزت تھا. اپنی محبتوں کو بھی کئی بار گھر والوں کے لئے قربان کیا مگر اف تک نہ کی. مرتے مر گئے مگر کبھی بڑوں کے فیصلے پر اعتراض نہ کیا۔
اپنے سے اوپر خاندان کو رکھا آج اگر دیکھا جائے تو ہمارے بچوں میں ایسا کچھ بھی نہیں. انہیں تو یہ تک پتہ نہیں کون ہمارا رشتہ دار ہے کون کس مشکل میں ہے انکے لیے رشتے اب بس فارمیلٹی بن چکے ہیں انکا حلقہ احباب بس انکے وقت گزارنے والے دوست ہیں. اب اگر موجودہ نسل اور پچھلی نسل کا موازنہ کیا جائے تو موجودہ نسل نے ایسا کوئی بھی کام نہیں کیا کہ جس سے لگے آئندہ آنے والی نسل خاندان کی اہمیت کو سمجھے گی بھی نہیں. کل کلاں جب یہ نسل والدین بنے گی تب انکی اولادیں ان سے زیادہ مغرب پسند فطرت کی ہوں گی. تب یہ کیا کریں گے. مغرب کی طرح انکے بچے بھی بچوں کو ڈانٹنے پر بھی انہیں جیل بھیج دیں گے. تب یہ کیا محسوس کریں گے. مغرب اور مشرق میں فرق تو بس رشتوں کا ہے۔
ورنہ لوگ تو وہاں بھی بستے ہیں اور لوگ یہاں بھی. پر انکی زندگی بس اپنی “میں” تک محدود ہے. جب مغرب کی تقلید کریں گے تو انکا بھی یہی حال ہونا ہے. ڈر ہے کہیں موجودہ نسل ایوانوں سے اپنے حق میں یہ کہہ کر بل پاس نہ کرا لے کہ ہمیں ہمارے دوستوں سے ملنے سے روکا جاتا ہے ہم پر پابندی لگائی جاتی ہے. ڈر ہے آئندہ آنے والی نسل میں خزاں میں بکھرے پتوں کی طرح رشتے بھی بکھر جائیں گے. جنہیں سنبھالنا اکٹھا کرنا اپنی توہین کے سوا کچھ نہیں لگے گا. تب انسانیت تو بس ماضی کی کہانیوں میں ہی نظر آئے گی. شاید تب کچھ اہل عقل اپنی اولاد کو پری اور شہزادے کی کہانی سنانے کی بجائے ہم میں سے کسی کی کہانی سنائیں جس نے اپنوں کیلئے خود کو قربان کیا ہو۔