ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ موجودہ گلوبل سسٹم کا برقرار رہنا ناممکن ہے۔
صدارتی سوشل کمپلیکس میں منعقدہ سفیروں کے 12 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب میں صدر ایردوان نے کہا ہے کہ بیرونی ممالک میں متعین ترکی کے سفیروں کو رواں سال میں اپنے معمول کے فرائض کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس وباء کے خلاف بھی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اس دورانیے میں اقتصادی حوالے سے مضبوط ممالک میں صحت کے کمزور انفراسٹرکچر کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے لیکن ترکی اس امتحان میں کامیاب رہا ہے۔
صدر ایردوان نے کہا ہے کہ برحق کی جگہ طاقتور کا، اکثریت کی بجائے مٹھی بھر اقلیت کا، غریب کی بجائے امیر کا ساتھ دینے والے اس عالمی نظام کا برقرار رہنا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کثیر المراکز رجحان اور علاقائیت بتدریج اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔اس وقت ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں کہ جہاں رسد کی زنجیر کی تقسیم نو ہو رہی ہے، پیداوار اور لاجسٹک مراکز کا دوبارہ سے تعین ہو رہا ہے، نئے علاقائی اتحاد قائم ہو رہے ہیں اور سیاسی و اقتصادی پلیٹ فورم ایک نئی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا عزم ہے کہ ایسے دور میں ہم اپنے ملک و ملت کو کسی نئی پشیمانی کا سامنا نہیں ہونے دیں گے۔ اس نئے دور میں ترکی کو ایک قائد اور بانی کی حیثیت میں آگے بڑھانے کے لئے ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ کام کر رہے ہیں”۔
صدر ایردوان نے کہا ہے کہ اگر اس وقت لیبیا میں بحران کے سیاسی حل کے لئے دوبارہ سے امید کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں تو اس میں ترکی کی بروقت مداخلت کا ہاتھ ہے۔جہاں تک مشرقی بحیرہ روم کا تعلق ہے تو ترکی وہاں کی ہر پیش رفت کا بوجھ سہارے ہوئے ہے لیکن قدرتی وسائل کے معاملے میں اسے نظر انداز کیا جانا ہمارےلئے قابل قبول نہیں تھا۔مجھے یقین ہے کہ مشرقی بحیرہ روم میں جاری تحقیقی کاروائی کے نتیجے میں ہمیں نئی خوشخبریاں سننے کو ملیں گی۔
یورپی یونین کی ترکی کو اپنے سے دُور کرنے پر مبنی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ یورپی یونین اس اسٹریٹجک اندھے پن سے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر نجات پا لےگی۔
آذربائیجان کے مقبوضہ علاقے شُوشا کی آزادی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ شُوشا کی رہائی سے خوشی اور امیدوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب تک پہاڑی قارا باغ آزاد نہیں ہو جاتی جدو جہد جاری رہے گی۔
اسلام دشمنی کا موضوع بھی صدر ایردوان کے خطاب میں شامل تھا اس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ اسلام دشمنی کی صدارتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اسلام دشمنی کے خلاف جدوجہد کرنا ، ایمان کے حوالے سے بھی اور بیرونی ممالک میں مقیم اپنے شہریوں کے حوالے سے بھی ،ہماری ذمہ داری ہے۔