موجودہ صورتحال میں سیاسی منظر نامہ اس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے کہ سیاست کب کہاں کونسا موڑ لیلے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ہم یہ کالم 12 اور 13 اگست کی درمیانی شب کو لکھ رہے ہیں اور اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ملکی حالات میں تشنگی بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب بھی فرمایا جس میں انھوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے ایک تین رکنی جوڈیشنل کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جسے خان صاحب نے یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
ملک عجیب دوراہے پر آکھڑا ہوا ہے دونوں جماعتیں محاظ آرائی کی جانب تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں دونوں طرف سے سیاسی وفاداریوں کا جوڑ توڑ عروج پر ہے ۔ایسے میں حکومت کو ایک گڈ نیوز ملتی ہے کہ تحریکِ انصاف کے صدر جناب جاوید ہاشمی آزادی مارچ سے علیحدگی کا اعلان کرنے کو ہیں مطلب خان صاحب کی پیٹھ میںکچھ گھوپنے کو ہیںجو کہ زیادہ نہ سہی لیکن حکومت کے لیے اس گھٹن زدہ ماحول میں آکسیجن کا کام ضرور دیگی۔خیر ہم سمجھتے ہیں کہ ہاشمی صاحب کے آنے سے پی ٹی آئی کو کوئی فرق پڑاتھا نہ انکے جانے سے کوئی فرق پڑسکتا ہو۔لیکن موجودہ حالات میں عمران خان کے لیے ایک دھچکا ضرور ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ میدان سجنے والاہے صفیںبندھنا شروع ہوچکی ہیںکون کہا ں کھڑا ہے کس کے ساتھ کھڑا ہے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سب دیکھا جارہا ہے ۔کل کیا ہونے جارہا ہے سب کی نظریں اس پر لگی ہیں امریکی اخبار گارجین کے مطابق دال میں کچھ کالا ضرور ہے جبکہ پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مطابق پوری کی پوری دال ہی کالی ہے۔اندورنِ خانہ بات کچھ بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ میاں صاحب اور خان صاحب دونوں ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں جس کے مطابق کسی ایک کی سیاسی شہادت یقینی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومتی بدحواسی صاف ظاہر ہے جبکہ عمران خان کی پوزیشن 14 اگست کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوگی ۔ خان صاحب نے رائی کو جس طرح پہاڑ بنایا ہے یہ اُن کی سترہ سالہ سیاسی تجربے کا نچوڑ ہے جسے وہ بڑی فہم وفراست کے ساتھ استعمال کررہے ہیں پاکستان کی سیاست میں بہترین سیاستدان وہ جانا جاتا ہے جو اپنے مخالف کو ٹف ٹائم دے اورعوامی حلقوں میں اپنے مثبت کردار کو واضح کر کے عوامی حمایت حاصل کرسکے اس دفعہ خان صاحب اس میں خاصے کامیاب رہے ہیںحکومتی ناکامیوں نے خان صاحب کو ایک گولڈن چانس دیا ہے ۔حکومت کی سب سے بڑی بدحواسی کی وجہ اس کی اپنی ناکامیاں ہی ہیں جسے وہ کسی بھی طرح ڈفائن کرنے کی پوزیشن سے قاصر ہے۔ ہم سیاست کے میدان میں میاں صاحب کو ایک ماہر سیاستدان کی حیثیت سے نہیں مانتے کیوں کہ ایک ماہر سیاستدان وہ ہوتا ہے جس میں سیاسی گُر ہوں جو سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کو چت کرنا جانتا ہو۔
میاں صاحب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ جنرل ضیاء کے بعدسے آج تک سیاسی میدان میں مسلسل شکست کھاتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین باروزیر اعظم بننے کے باوجودہر بار اپنی آئینی مدت کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیںآج بھی اپنے اقتدار کو خطرے میںڈالے بیٹھے ہیںسارے آپشن ختم ہوچکے ہیں سوائے ریاستی جبر کے جسے وہ بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں اس طرح میاں صاحب اپنے اقتدار کو بچا پائینگے یا نہیں یہ بات کہنا قبل از وقت ہے لیکن قارئین مسئلہ یہ ہے کہ دوسری طرف بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
Imran Khan
اگر عمران خان صاحب کا آزادی مارچ کامیاب نہیں ہوتا اور میاں صاحب اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب رہتے ہیں تو پھر عمران خان صاحب کے سیاسی قد میں واضح کمی آجائے گی بلکہ ان کا سیاسی کیریئر سالوں پیچھے چلاجائے۔لیکن کیا خان صاحب کو اس کا احساس نہیں؟ یقینا ہوگا یہی وجہ ہے کہ وہ ایک لائن طے کئے بیٹھے ہیں اور اب تو علامہ صاحب بھی اپنا سارا انقلابی ایندھن تحریکِ انصاف کو بطور عطیہ دے چکے ہیں جس کا تجزیہ ہم اپنے پچھلے کالم میں کرچکے تھے۔لہذا اب عمران خان کے لیے صورتحال زیادہ خطرناک نہیںوہ ابھی تک تو اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکیں اگر خان صاحب اپنی بہتر پوزیشن کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں تو دوسری جماعتیں جو دور کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی ہیں وہ بھی عمران خان کے ساتھ اپنا نام شہیدوں میں لکھوانے کی کوششوں میں لگ جائیں گی۔
اگر عمران خان اسلام آباد میں اپنی بہتر پوزیشن نہ دکھا سکے تو بھی ان کے پاس تُروپ کا پتہ موجود ہے جسے وہ آخر میں شو کرائینگے اور اسی تُروپ کے پتے کی وجہ سے میاں صاحب کو اپنی کشتی دوبتی نظر آرہی ہے اور بَنسبت قادری صاحب کی عوامی تحریک کے عمران خان کی پی ٹی آئی پر ہاتھ تھوڑا ہولہ ہی رکھا ہوا ہے۔
وہ تُروپ کا پتا ہے تحریکِ انصاف کا صوبائی و قومی اسمبلیوں سے استعفے دینا یہ وہ تُروپ کا پتہ ہے جس کی بنا پر عمران خان اتنے آگے آئے ہیں اور تخت یا تختہ کی سیاست کر گزرے۔استعفوں کے بعد اسمبلیوں میںایک آئینی بحران پیدا ہوجائے گا کے پی کے کی اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اس طرح دیگر جماعتیں بھی مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔
اس حوالے سے ایم کیو ایم بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے اور سندھ میں بھی ایک آئینی بحران پیدا کیا جاسکتا ہے۔جس کے بعد میاں صاحب اتنے مجبور ہوجائینگے یا مجبور کردیئے جائینگے کہ انھیں گھر جانا ہی پڑے گا۔لیکن اِ س تخت یا تختہ کی سیاست میں بچولی عوام کیا کھوئے گی کیا پائے گی اس کا تجزیہ کرنے سے فلحال قاصر ہیں۔ اور ہاں قارئین آخر میں جاتے جاتے اس بحرانی کیفیت میں مضطرب ملکی حالات کے ساتھ قوم کو یومِ آزادی مبارک۔
Imran Ahmad Rajput
تحریر: عمران احمد راجپوت CNIC: 41304-2309308-9 Email:alirajhhh@gmail.com