تحریر : افضال احمد رسم صرف اس بات کو نہیں کہتے جو نکاح اور تقریبات میں کی جاتی ہیں بلکہ ہر غیر لازم چیز کو لازم کر لینے کا نام رسم ہے خواہ تقریبات میں ہو یا روز مرہ کے معمولات میں ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے رسمیں بالکل لغو تھیں، مگر یہ ضرور تھا کہ بہت سے سمجھدار کرنے والے بھی ان کو لغو سمجھتے تھے اگرچہ کرتے سب تھے، اور آج کل کی جو رسمیں ہیں ان کو دانش مند لوگ بھی یہ نہیں سمجھتے کہ یہ گناہ ہے، اور وہ رسمیں آجکل کی تفاخر اور تکلف کی ہیں، پہلے لوگ موٹا چھوٹا پہن لیتے تھے، باسی تازی کھا لیتے تھے اور آج کل کوئی ادنیٰ آدمی بھی غریبانہ معیشت کو پسند نہیں کرتا، اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عیب سمجھتے ہیں، بول چال میں، اُٹھنے بیٹھنے میں سب میں تکبر اور تکلف بھرا ہوا ہے، گویا ہر وقت کسی نہ کسی رسم کے پابند ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر لوگ آنکھیں بند کر لیتے ہیں، بہت سارا پیسہ فضول رسموں رواج میں بہا دیتے ہیں۔ خوب سمجھ لو! خرچ کرنے کی بھی حدود ہیں جیسے نماز، روزہ کی حدود ہیں، اگر کوئی شخص نماز بجائے چار رکعت کے چھ رکعت پڑھنے لگے یا کوئی عشاء تک روزہ رکھنے لگے گنہگار ہو گا۔ مالدار لوگ شادی وغیرہ میںبڑی بے احتیاطیاں کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کے حال پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ وہ آگے پیچھے کا کچھ خیال نہیں کرتے’ بُری طرح فضول خرچی کرتے ہیں’ یہاں تک کہ تباہ ہو جاتے ہیں’ بعض کی لنگوٹی بندھ جاتی ہے’ یہ نوبت مسلمانوں کی اس وجہ سے ہوئی کہ اسلام کے آہنی قلعہ کا پھاٹک کھول دیا’ ورنہ اسلامی اصول پر چلنے سے کبھی ذلت نہیں ہو سکتی’ حقوقِ مالیہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔
جن لوگوں کے واسطے تم خرچ کرتے ہو جس وقت مصیبت سر آن پڑتی ہے تو ان میں سے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہیں دیتا’ ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ مال برباد کرنے کو کس نے کہا تھا؟ اپنے ہاتھوں برباد ہوئے’ ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ خوشحالی میں کہتے تھے کہ جہاں تمہارا پسینہ گرے وہاں ہم خون گرانے کو تیار ہیں لیکن جس وقت تباہی آتی ہے ان میں سے ایک بھی آپ کا ساتھ نہیں دیتا’ سب آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور بدل جاتے ہیں۔ ہم ہیں کہ ان ناشکرے لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر خود کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ آج جب کسی شخص سے پوچھا جائے کہ رشتہ داروں کا بھی کچھ حق ہے؟ ہر ایک یہی جواب دے گا کہ رشتہ داروں کے بہت حقوق ہیں، لیکن کون شخص ان حقوق کو کس درجے میں کس طرح ادا کر رہا ہے؟ اگر اس کا جائزہ لے کر دیکھیں تو یہ نظر آئے گا کہ ہمارے سارے معاشرے کو رسموں نے جکڑ لیا ہے اور رشتہ داروں سے جو تعلق ہے وہ صرف رسموں کی ادائیگی کی حد تک ہے، اس سے آگے کوئی تعلق نہیں، مثلاً اگر کسی کے گھر شادی بیاہ ہے تو اس موقع پر اس کو کوئی تحفہ دینے کو دل نہیں چاہ رہا ہے، یادینے کی طاقت نہیں ہے تو اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر تقریب میں خالی ہاتھ چلے گئے تو بُرا معلوم ہو گا’ چنانچہ اب بادلِ ناخواستہ اس خیال سے تحفہ دیا جارہا ہے کہ اگر نہ دیا تو ناک کٹ جائے گی اور خاندان والے کیا کہیں گے اور جس کے یہاں شادی ہو رہی ہے وہ یہ کہے گا کہ ہم نے اس کی شادی میں یہ تحفہ دیا تھا اور اس نے ہمیں کچھ نہ دیا، چنانچہ یہ تحفہ دل کی محبت سے نہیں دیا جا رہا بلکہ رسم پوری کرنے کے لئے’ نام و نمود کے لئے دیا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحفہ دینے کا ثواب تو ملا نہیں بلکہ نام و نمود کی نیت کی وجہ سے الٹا گناہ ہو گیا۔
ایک رسم جو ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے کسی علاقے میں کم اور کسی علاقے میں زیادہ ہے وہ ہے ”نیوتہ” کی رسم’ تقریبات میں لینے دینے کی رسم کو ”نیوتہ” کہا جاتا ہے’ ہر ایک کو یہ یاد ہوتا ہے کہ فلاں شخص نے ہماری تقریب کے موقع پر کتنے پیسے دیئے تھے اور میں کتنے دے رہا ہوں’ بعض علاقوں میں تو تقریبات کے موقع پر باقاعدہ فہرست تیار کی جاتی ہے کہ فلاں شخص نے اتنے پیسے دیئے’ فلاں شخص نے اتنے پیسے دیئے ہیں۔ پھر اس فہرست کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اور پھر جس شخص نے پیسے دیئے ہیں’ اس کے گھر جب کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہو گی تو اب یہ ضروری ہے کہ جتنے پیسے اس نے دیئے تھے اُتنے پیسے اس کی تقریب میں دینا لازم اور ضروری ہے’ چاہے قرض لے کر دے یا اپنا اور اپنے بیوی ‘ بچوں کا پیٹ کاٹ کر دے یا چوری اور ڈاکہ ڈال کر دے لیکن دینا ضرور ہے۔ اگر نہیں دے گا تو یہ اس معاشرے کا بد ترین مجرم کہلائے گا’ اسے ”نیوتہ” کہا جاتا ہے۔
ALLAH
تحفہ دینے سے اللہ کو راضی کرنا مقصود ہے یا بدلہ لینا مقصود ہے؟ اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر تحفہ دینے کے بعد آپ کو اس بات کا انتظار لگا ہوا ہے کہ سامنے والا شخص آپ کا شکریہ ادا کرے اور کم از کم پلٹ کر اتنا تو کہہ دے ”آپ کا بہت بہت شکریہ” یا اس بات کا انتظار ہے کہ جب آپ کے گھر کوئی تقریب ہو گی تو یہ تقریب کے موقع پر آپ کو تحفہ پیش کرے گا یا اگر بالفرض آپ کے ہاں کوئی تقریب ہو تو وہ کوئی تحفہ نہ لائے تو اس وقت آپ کے دل میں میل آجائے اور اس کی طرف سے آپ کو شکایت ہو کہ آپ نے تو اتنا دیا تھا اور اس نے کچھ بھی نہیں دیا، یا آپ نے زیادہ دیا تھا اور اس نے آپ کو کم دیا، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ اس دینے میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود نہیں تھی۔ اگر کسی شخص کے دل میں خیال آتا ہے کہ میرے ایک عزیز کے یہاں خوشی کا موقع ہے’ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کو کوئی تحفہ پیش کروں اور اس کی خوشی کے اندر میں بھی شریک ہو جائوں اور تحفہ دینے سے ”بدلہ” اور ”نام نمود” اور ”دکھاوا” پیش نظر نہیں ہے بلکہ اپنے رشتہ داروں کا حق ادا کرنا ہے اور اللہ کو راضی کرنا ہے تو اس صورت میں تحفہ دینا اور پیسہ دینا اَجرو ثواب کا باعث ہو گا اور یہ تحفے اور پیسے صلہ رحمی میں لکھے جائیں گے بشرطیکہ تحفہ دینے سے اللہ کو راضی کرنا مقصد ہو۔بہرحال! جو تحفہ اللہ کے لئے دیا جائے وہ دینے والے کے لئے بھی مبارک اور لینے والے کے لئے بھی مبارک ہے اور جس تحفہ کا مقصد حرص ہو اور نام و نمود ہو اس میں نہ دینے والے کے لئے برکت اور نہ لینے والے کے لئے برکت ہے۔
رسم و رواج کو ایجاد کرنے سے گریز کریں۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل حسد کے وجہ سے ہوا یعنی قابیل نے ہابیل کو ناجائز قتل کر دیا۔ بزرگ کہتے ہیں رہتی دنیا میں جتنے ناجائز قتل ہوتے رہیں گے اُس قتل کا گناہ قابیل کو بھی پہنچے گا کیونکہ قابیل نے ہابیل کو قتل کر کے دنیا میں ایک نیا رواج ایجاد کیا ایسا رواج جس کا لوگوں کو علم نہیں تھا۔ اس لئے اس رواج کے ایجاد کرنے پر قابیل کو رہتی دنیا تک ہر قتل کے بدلے گناہ ملتا رہے گا۔اب دیکھ لو قابیل کو مرے ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا لیکن گناہ اُسے برابر پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے مختلف علاقوں کے لوگ روز بروز ایک نیا رواج ایجاد کر لیتے ہیں جو نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ رواج ایجاد کرنے والا تو کچھ ہی عرصے میں فوت ہو جاتا ہے لیکن اُس کے بنائے ہوئے ناجائز رسم و رواج دنیا میں چلتے رہتے ہے جس کا گناہ اُسے مر جانے کے بعد بھی برابر ملتا رہتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو اپنے خاندان کے ناجائز رسم و رواج کا علم ہی نہیں ہوتا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو شادی کے موقع پر ان کے بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے خاندان کے یہ ‘ یہ رسم و رواج ہیں۔ ہمیں یہ رسم و رواج باپ دادا سے ملے ہیں یہ رسم و رواج ہم ختم نہیں کر سکتے حالانکہ ان میں بے شمار ناجائز رسم و رواج شامل ہوتے ہیں۔ ان ناجائز رسم و رواج کو ایجاد کرنے میں موت آگئی تو قبر میں جا کر انسان کبھی واپس دنیا میں اپنی غلطی صحیح کرنے نہیں آسکتا ۔دنیا میں ایسا کام کر کے جائو کے لوگ آپ کی موت کے بعد آپ کو اچھے لفظوں میں یاد کریں’ کوئی ایسا علم چھوڑ جائو کہ تمہاری موت کے بعد بھی آپ کیلئے ثواب کا ذریعہ بن جائے نا کہ ایسا علم یا رسم و رواج جو آپ کی موت کے بعد بھی آپ کے لئے گناہ کا باعث بنے۔ مخیر حضرات میرے اصلاحی مضامین کی کتابیں چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کریں اور اپنی’ اپنے والدین کی آخرت سنواریں کسی ایک انسان کی بھی آپ کی وجہ سے اصلاح ہو گئی تو آپ کی دنیا و آخرت سنور جائے گی! انشاء اللہ۔