لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ نے سائبر کرائم ایکٹ 2016 کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت، اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد 26 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کیے۔
سائبر کرائم ایکٹ کو 2016 کے خلاف پاکستان کی حزب مخالف کی جماعت عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اشتیاق چودھری نے دائر کی جس میں سائبر کرائم ایکٹ کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل نے قانونی نکتہ اٹھایا کہ سائبر کرائم ایکٹ کی دفعات آئین کے بنیادی حقوق اور آزادی رائے کے مخالف ہے۔
پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوان نے گزشتہ ماہ سائبر کرائم ایکٹ کی منظوری دی تھی اور مختلف حلقوں کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے روبرو درخواست گزار وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ سائبر کرائم کا قانون سیاسی مخالفیں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور اسے آزادی اظہار پر پابندی بھی لگائی جاسکتی۔
پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوان نے گذشتہ ماہ سائبر کرائم ایکٹ کی منظور دی تھی سماعت کے دوران وکیل نے نشاندہی کی کہ ایکٹ میں سائبر دہشت گردی کی ایک شق شامل کی گئی ہے جس کے بعد سائبر کرائم ایکٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے مساوی ایک قانون بن گئے۔
درخواست گزار وکیل اشتیاق چودھری نے یہ قانونی اعتراض بھی اٹھایا کہ ملک میں ایک وقت میں دو مساوی قوانین کا کوئی جواز اور گنجائش نہیں ہے۔ درخواست میں یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ سائبر کرائم ایکٹ کی شق 18 کی وجہ سے ہتک عزت کا ایک نیا قانون متعارف کرادیا گیا ہے اس طرح ایک وقت میں دو قوانین ایک دو سے متصادم ہوجائیں گے۔
وکیل نے تجویز دی کہ سائبر کرائم ایکٹ ہتک عزت کے بارے میں شق شامل کرنے کے بجائے ہتک عزت کے قانون میں ترمیم کی جاسکتی تھی۔
دلائل میں درخواست گزار وکیل نے تشویش ظاہر کی کہ سائبر کرائم ایکٹ کے ذریعے پاکستان کی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو لا محدود اختیار دے دیے ہیں جس کے بعد ایف آئی اے بغیر کسی چھان بین کے کسی بھی شہری کے کمپیوٹر اور موبائل فون سے ڈیٹا حاصل کرسکتی ہے۔
وکیل نے استدعا کی کہ سائبر کرائم 2016 کی دفعات آئین منافی ہونے کی بنا پر کالعدم قرار دیا جائے۔