اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے ایوان بالا “سینیٹ” کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سائبر کرائم بل 2015ء کا ترمیمی مسودہ منظور کر لیا ہے جسے اب منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اس مسودہ قانون کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت سے وابستہ افراد، انٹرنیٹ صارفین کے حقوق اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی طرف سے یہ کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ لیکن ان تحفظات کے باوجود رواں سال اپریل میں ایوان زیریں “قومی اسمبلی” نے یہ بل منظور کر لیا تھا۔
تاہم سینیٹ کی کمیٹی کے مختلف ارکان کے ساتھ ان تنظیموں کے نمائندوں کی ہونے والی مشاورت کے بعد بہت سے تجاویز پیش کی گئی تھیں اور منگل کو اس کی منظوری کے بعد کمیٹی کے رکن سینیٹر رحمن ملک نے بتایا کہ اس میں ہر ممکن حد تک فریقین کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
“ہر بل میں ہر قانون میں ہر ایک کے تحفظات ہوتے ہیں، ہم نے ہر ایک کو سنا اور جس حد تک ممکن ہو سکتا تھا (ان تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا)، پاکستان کی قومی سلامتی کو بھی سامنے رکھنا ہے۔۔۔سائبر کی سہولت کو (کوئی) غلط استعمال کر سکتے ہیں ان سب کا ہم نے جائزہ لیا ہے۔”
سینیٹر رحمن ملک نے بتایا کہ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملکی آئین کے تحت شہریوں کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں، قانون کو نافذ کرتے ہوئے ان سب کا خیال رکھنا جانا چاہیے۔
کمیٹی کی طرف سے منظور کیے گئے ترمیمی مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے عدالت عالیہ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی اور اس عدالت کی اجازت کے بغیر کسی معاملے کی تحقیقات نہیں کی جا سکے گی۔
سائبر دہشت گردی پر 14 سال قید اور پچاس لاکھ روپے جرمانہ، نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے پھیلاؤ کے لیے سائبر نظام کے استعمال پر سات سال قید ہوگی۔
مزید برآں بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر انٹرنیٹ پر جاری کرنے پر سات سال قید اور انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کرنے والوں کی معلومات یا ڈیٹا کا عدالتی حکم کے بغیر تبادلہ نہیں کیا جا سکے گا جب کہ سائبر کرائم قانون کا اطلاق کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر غیرقانونی سرگرمی کرنے والے پر بھی ہو گا۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم “بائیٹس فار آل” کے عہدیدار شہزاد احمد نے کہا کہ وہ کمیٹی سے منظور ہونے والے ترمیمی بل کے متن کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے بعد ہی اس بارے میں ردعمل کا اظہار کریں گے۔