تحریر : عماد ظفر زمانہ ارتقا کے عمل سے ہمیشہ سے گزر رہا ہے اور گزرتا رہے گا.ارتقا کا عمل اپنے اندر زندگی کی نمو سمیٹے ہر دور میں انسانی شعور پر کائنات کی وسعتوں کے راز پنہاں کرتا رہا ہے. یہ اکیسویں صدی ویسے بھی انفارمیشن کی صدی کہلاتی ہے. ٹیکنالوجی کی جدتوں اور سایینس کی نت نئی دریافتوں اور ایجادات کے بعد نالج یعنی علم انسان کے ہاتھوں کی انگلیوں میں سمو گیا ہے.آج سے چند دہائیوں قبل جو معلومات یا علم محض چند افراد تک محدود تھا وہ اب کمپیوٹر کے ایک کلک سے ہر فرد تک باآسانی میسر ہے. آپ گوگل یا وکی پیڈیا پر دنیا کے کسی بھی کلیے کسی بھی کتاب کسی بھی خبر کو باآسانی پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں. فاصلوں کے گھٹنے اور معلومات تک عام آدمی کی رسائی نے دنیا میں ایک نئی تہذیب بھی متعارف کروا دی ہے۔
انسان اب ایک مشترکہ عالمی تہزیب کا حصہ ہے. معلومات اور حقائق کی اس دنیا میں انٹرنیٹ نے ایک انقلاب کا کام سرانجام دیا ہے.مثبت بات یہ ہے کہ دنیا جب سے سمٹ کر ایک نئی عالمی تہزیب یا یوں کہئے ایک گلوبل ویلیج بنی ہے تب سے دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والوں کے درمیان جمی ہوئی غلط فہمیوں اور تعصبات کی برف بھی پگلنا شروع ہوئی ہے. بہت سے مفروضات اور خدشات غلط ثابت ہوتے جا ہیں.انسان اب ایک دوسرے کو سمجھنے اور اختلاف رائے کو جگہ دینے پر آمادہ نظر آتا ہے. یہ خوش آئیند امر ہے۔
وطن عزیز میں بھی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے مجموعی شعور میں اضافہ ہوا ہے. جو باتیں آج سے بیس برس قبل سوچنا اور کہنا معیوب تصور کی جاتی تھیں یا یوں کیئے کہ فرسودہ اور جبری گھٹن کی معاشرتی زنجیروں سے باندھ کر رکھی جاتی تھیں اب وہ ہر مناسب پلیٹ فارم پر زیر بحث نظر آتی ہیں. سوچ و نظریات پر بندھی پٹی اب اتر چکی ہے.بہت سے فراڈ یا جھوٹ جو کہ عوام یا معاشرے کے ساتھ بولے جاتے تھے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی بدولت اب ممکن نہیں رہے.سوشل میڈیا پر ہر شخص اب سیاسی مذہبی یا دفاعی ٹھگوں کے چورن کو رد کرتے ہوئے اب آواز بلند کرتا ہے.اور ایک طرح سے یہ معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں کا پالیسیوں پر فیڈ بیک ہوتا ہے۔
Panama Leaks
حکمران جماعت جو پہلے ہی سے پانامہ لیکس کے باعث ایک شدید سیاسی و اخلاقی دباو کا شکار ہے ایسے موقع پر لوگوں کی آزادی اظہار کے رائے کو ساہیبر کرائم بل کے نام پر سلب کرنے کی ایک انتہائی بیوقوفانہ حرکت کر بیٹھی.بلکہ یوں کہیے کہ تمام سیاس ٹھگوں نے مذہبی اور دفاعی ٹھگوں کے ایما پر اسے قومی اسمبلی سے پاس کروا لیا. اس مضحکہ خیز بل کے تحت ریاست جب چاہے کسی کو بھی غداری توہین کفر ملک دشمنی کے جرائم کے تحت گرفتار کر سکتی ہے.گویا وہ 10 سے 15 فیصد آبادی جو کہ ریاستی مذہبی اور دفاعی بیانیے کے درپردہ مقاصد سمجھتی ہے اور ان پر تنقید کرتی ہے اسے سبق سکھانے کی مکمل تیاری کر لی گئی. فہم سے بالاتر ہے کہ پاکستان کا مفاد یا اس کا اچھا برا کی تشریح کوئی بھی ادارہ اپنے ذمے کیسے لے سکتا ہے۔
وطن عزیز کے قیام سے لے کر آج تک اسی غداری توہین اور کفر کی اسناد تقسیم کرنے کے عمل نے معاشرے کو گونگا بہرہ اور بصیرت سے محروم رکھا.آزدی اظہار یا آزادی افکار نہ مل پانے کی وجہ سے معاشرے میں فکری بانجھ پن پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں سیاست دفاع اور مذہب کے نام پر زیادہ تر فکری جمود کے شکار افراد کو اپنا اپنا چورن بیچنا انتہائی آسان ہو گیا.الیکٹرانک میڈیا کے سیٹھ اپنے اپنے کاروباری یا سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے وہی سب عوام کو دکھاتے ہیں جو کہ ارباب اختیار چاہتے ہیں اور یہی حال اخبارات کا ہے جنہیں اپنی بقا کیلئے اشتہارات اور لفافوں کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے.سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے باعث اب الیکٹرانک اخبارات انٹرنیٹ ٹی وی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
انٹرنیٹ پر موجود بے شمار خبروں اور حالات حاضرہ پر مبنی ویب سائٹس ذمہ دار اور پیشہ ور صحافیوں کی زیر ادارت عوام تک معلومات کی رسائی کا کام نجوبی انجام دے رہی ہیں.ان میں سے اکثر آن لائن اخبارات کا معیار سینکڑوں اشتہاروں کے حصول یا کالے دھن کی کمائی کی غرض سے قائم شدہ اخبارات سے بہتر ہے.اسی طرح آن لائن ٹی وی بھی اب تھری جی اور فور جی کے آنے کے بعد پائپ لائن میں ہیں.جو باشعور سوچ رکھنے والے تخلیقی ذہن کے مالک لوگ کچھ لکھنا یا بولنا چاہیں تو اب انہیں روایتی اخبارات کے مدیروں کے تلوے چاٹتے ہوئےایک مخصوص فرمائشی کالم نہیں لکھنا پڑتا.بلکہ آن لائن ویب سائیٹس جو کہ اپنے کاروباری مقصد کیلئے ہرگز بھی ارباب اختیار کی محتاج نہیں ہوتیں ان کا پلیٹ فارم ایسے اشخاص کیلیے حاضر ہوتا ہے۔
Internet
حال ہی میں دنیا میں کی گئی تحقیق کے مطابق میڈیا کا مستقبل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے بالخصوص اخبارات اگلی دو دہائیوں تک سمٹ کر انٹرنیٹ یا آن لائن ہو جائیں گے.اس ضمن میں مشہور برطانوی اخبار دی انڈیپینڈینٹ کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے اپنی اشاعت روک کر اخبار کو آن لائن کر دیا ہے. پاکستان میں سیاسی مذہبی اور دفاعی گدی پر بیٹھے پالیسی سازوں کو اس امر کا ادراک ابھی تک نہیں ہوا کہ زمانہ جدید میں اظہار رائے پر پابندی لگانا تقریبا ناممکن ہے.ویسے بھی انسانی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نے آج تک حاصل کی ہوئی بنیادی جبلتوں کی آزادیاں واپس نہیں کیں.اور اظہار رائے کی آزادی ان میں سے ایک ہے.یہ بات بھی فہم سے بالاتر ہے کہ ایک طرف دہشت گردی اور شدت پسندی کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے آپریشن لانچ کیئے جاتے ہیں اور دوسری جانب رائے کے اظہار پر پابندی کی کوشش کر کے پھر تعصب اور جبر کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دہشت گردی اور شدت پسندی انہی جابرانہ اقدام اور تعصبات کی وجہ سے جنم لیتی ہیں.اب ایک فیس بک کا سٹیٹس یا ٹویٹر پر ٹویٹ کرنے والا اگر سیاسی سماجی دفاعی یا مذہبی معاملات پر کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام سے مایوس نہیں بلکہ اپنی تنقید یا مزاح کے انداز میں اس کی بہتری کیلہئے کوشاں ہے.اس شخص سے اگر یہ آزادی بھی چھین لی جائے اور مخصوص افراد یا اداروں کو مقدس گائے کے رتبے پر فائز کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے خود اس نظام کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے. اب کسی کے حکومتی پالیسیوں دفاعی پالیسیوں یا مذہبی چورن فروشوں پر تنقید کرنے سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے یا آزادی اظہار کے رائے کے حق کو دبا کر اس کا فیصلہ قارئین پر. البتہ پارلیمنٹ نے سائبر کرائم بل پاس کر کے خود جمہوریت کی بنیادی شق اظہار رائے کی پامالی کرتے ہوئے خود جمہوری اقدار اور روایات پر ایک خود کش حملہ کیا ہے.قدرت کا قانون ہے کہ جس چیز کو جتنا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اتنا ہی زور پکڑتی ہے۔
Law
یوں بھی جرات اظہار اور وسعت افکار بھلا کسی بھی نام نہاد قانون یا قائدے کو کب مانتی ہیں.ارسطو ہو یا سقراط عیسی ہو یا محمد یا پھر حسین ان سب نے جرات اظہار کا ہی درس دیا تھا اور اپنے وقت کے قوانین کو خاطر میں لائے ہی کب تھے.وہ قوانین تو نہ رہے البتہ ان شخصیات کے افکار اور تعلیمات آج بھی زندہ ہیں.وطن عزیز میں بھی تمام تر گھٹن کے باوجود منٹو فیض جالب محسن نقوی استاد دامن جیسے متوالے جنم لیتے ہی رہے ہیں اور جنم لیتے رہیں گے. بھلے ہی کتنے کالے قوانین بنا کر سوچوں کو قیدی بنانے کی کوشش کی جائے سوچ ہر قید اور گھٹن سے آزاد ہوتی ہے۔