تحریر : ساجد حبیب میمن ملک میں جمہوری عمل کو جاری رہنے کے لیے حکومت کے اندر برداشت اورگفت وشنید کا ہونا بہت ضروری ہے یہ ہی اصول سوشل میڈیاپر لاگو ہوتے ہیں۔مجوزہ سائبرکرائم بل پر اس وقت اپوزیشن اورسول سوسائٹی میں بہت سے تحفظات پائیں جاتے ہیں ،سائبرکرائم قانون کے ذریعے سوشل میڈیاپر پابندیاں لگا کر حکومت نے اپنے لیے ایک دردسر پیدا کرلیاہے جو نہ عوام کے لیے تکلیف کا باعث ہے بلکہ اس قانون سے پولیس والے اور سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو تنگ بھی کرینگے ۔جس سے ایک نئی قسم کا عدالتی تنازع پیدا ہوجائے گاجس میں عوام کا پیسہ وقت اور توجہ ضائع ہوگی۔یعنی لوگوں میںایسے مواقع نہ پیدا کیئے جائے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف بلاوجہ مقدمے داخل کروائیں زاتی چقلش کی وجہ سے دوسروں کو جھگڑوں میں پھنسانا دانشمندی نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں بہت سے قوانین ہیں جسے کچھ لوگ اپنے مخصوص ایجنڈے کے لیے غلط استعمال کرتے ہیں اور سائبر کرائم بل میں اس قسم کے غلط استعمال کے مواقع کافی زیادہ ہیں۔عوام کا خیال ہے ان کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندیاں لگا کر حکومت خود کو مظبوط کررہی ہے مگر اس عمل سے عوام کے آزادی اظہارکے مواقعوں کو سلب کیاجارہاہے۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اس سلسلے میں ایک بااختیار ادارہ ہے جو یہ اختیار رکھتاہے کہ جو چیز ان کو پسند نہیں۔
وہ اس مواد کو خود ہی ہٹادے مگر وہ اس کام کااختیار نہیں رکھتا کہ انٹرنیٹ کا استعمال شہریوں کو اپنی مرضی سے کروائے یعنی انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے ۔فی الحال حکومت نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے ذریعے اس بل کو منظور کرلیاہے ،جس میں صرف سوشل میڈیا کا استعمال پابند سلاسل کیا گیاہے۔
Social Media
یعنی الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو اس میں استشنیٰ حاصل رہے گا۔سینٹ میں منظور ہونے والے اس بل میں سائبر جرائم میں ملوث افراد کو 15سال قید اور پانچ کروڑ جرمانے کی سزا دینے کا کہا گیاہے ،نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ معاملات پر سات سال کی قید رکھی گئی ہے میں سمجھتاہوں کہ اگر کوئی ایسا کرتاہے تو اس کو سزا بھی ملنی چاہیے مگر اس بل کی بہت سے شہریوں کو ابھی سہی معلومات بھی نہیں ہے جس میں ایک خوف سا پایا جاتاہے قائرین کرام سوشل میڈیا واحد زریعہ ہے جس میں لوگ کھل کراپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں ، مگر کچھ قوانین میں اس قدر باریکیاں ہیں کہ آزادی رائے کا اظہار مشکوک ہوجاتاہے کہ ہر کوئی یہ سمجھتاہے کہ میرے بولنے سے کہیں میں سزاکا مرتکب تو نہیں ہونے جارہاہوں؟۔
سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کی تعداد اب بہت بڑھ چکی ہے ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح لوگ سوشل میڈیا پر سیاسی اور معاشرتی امورپر اپنی رائے دیتے ہیںاور پھر اس پر ایک بحث چل نکلتی ہے ۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس انداز میں ایک ذریعہ دیا ہے کہ آپ گھر بیٹھے ملکی و بین القوامی حالات پر اپنا تبصرہ پیش کرسکتے ہیں اور اسی انداز میں دیگر لوگوں کی رائے پڑھ بھی سکتے ہیں۔ ان معاملات نے دنیا کو ہمارے بہت قریب کردیاہے ان لمحات کو جاری رکھنے کے لیے آزادی اظہارکا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سائبر کرائم قانون پر اس طرح نظر ثانی کی جائے کہ جو لوگ سوشل میڈیاکوسمجھتے ہیں ان کی رائے سے استعفادہ حاصل کیا جائے تاکہ منفی اور نفرت انگیز بیانات کی حوصلہ شکنی جاری رہ سکے یعنی اس میں سیاسی و معاشرتی رائے کے اظہارپرکوئی قدوغن بھی نہیں ہونا چاہیئے۔۔
Cyber Crime
اس حکومتی قانون کے ذریعے سوشل میڈیاپر کسی بھی قسم کی غیر ضروری پابندیاں نہیں لگانا چاہیئے اس سے دو نقصانات ہیں جو خود حکومت کی صحت کے لیے درست نہیں ہے نمبر ایک کے سب سے پہلے تو عوام یہ ہی سمجھے گی کہ حکومت اپنے غلط کاموں کو چھپانا چاہتی ہے اوراپنی غیر ضروری پالیسیوں اور حکومت کے کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کرنا چاہتی نمبر دو کہ اس وقت ایک گریجویٹ شخص سے لیکر ایک ان پڑھ آدمی کے پاس بھی اس وقت سمارٹ فون موجود ہے جو نہ صرف سوشل میڈیا کا استعمال جانتے ہیں بلکہ اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کچھ لکھ کر تو کچھ بول کر عوام تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں اس پر یہ تعداد کروڑوں تک جاپہنچی ہے کوئی ایسا قانون جو ان کی تفریح کو روکے یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرے وہ حکومت کی نیک نامی کو متاثر کرنے کے ساتھ حکومت کی مخالفت کو بڑھاوا ہی دے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ عوام اپنے اچھے اور برے کو خوب سمجھتے ہیں جو چیزیں غلط ہیں وہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو نہیں کرنی چاہیئے یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا میں کچھ شرپسند عناصر بھی گھس بیٹھے ہیں جو اس کا غلط استعمال کرکے عوام کی جانوں سے کھیل رہے ہیں مگر اس میں بہت سی عوام ایسی بھی ہے جو سوشل میڈیا پر عوام کو یکجہتی اور شرپسندی کے واقعات میں مدد بھی کررہی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے قانون کی شقوں پر ایک بار پھر سے تفصیلی غور ہونا چاہیئے اور اس کے ساتھ ان امکانات کو بھی ختم ہونا چاہیے کہ کوئی اپنے زاتی یا گروہی فائدے کے لیے ان قوانین سے لوگوں کو تنگ نہ کریں
اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون دان اور سیاستدان اوراس کے ساتھ سوشل میڈیا کے ایکسپرٹ آپس میں مل بیٹھ کر اس قانون کا ازسر نو جائزہ لیں تاکہ اس قانون میں موجود جو کمیاں اور خامیاں ہیں وہ سب کی اتفاق رائے سے حل ہوجائیں اور اس سائبر قانون بل کو جمہوریت اور آزادی اظہار کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاسکے ،اس اسٹیج پر اس پر غور خوض کرکے ضروری تبدیلیاں کرنا بھی آسان ہوجائینگی اور اس بل سے جو حکومت کی مخالفت میں اضافہ ہواہے اس کا بھی خاتمہ ہوسکے گاوگرنہ بعدمیں اس قانون سے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے اور معاشرے میں تنازے بھی بڑھے گے۔میری رائے ہے کہ حکومت کی جانب سے نئے قانون سائبرکرائم کے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے حل نکالنا چاہیے تاکہ اس قانون کی شقوں کو بیشتر لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے میں مدد مل سکے۔