سائبر کرائمز کی روک تھام یا آزادی اظہار پر پابندی

Cyber Crimes

Cyber Crimes

تحریر: محمد نواز بشیر
قومی اسمبلی نے سائبر کرائمز بل کی منظوری دے دی ہے، اب سینٹ کی منظوری کے بعد اس بل کو ملک بھر میں نافذ کر دیا جائے گا۔ ملکی حالات پر گہری نطر رکھنے والوں کے مطابق پھر بھی ملک میں سائبر کرائمز سے متعلق موثر قانون سازی کی ضرورت ہے، کیونکہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے ملک میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو قید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجوزہ سائبر کرائم قانون کو شہری آزادی پر بدترین پابندی قرار دیا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عوامی تحفظات دور کئے بغیر ایسا قانون بنانے کی حمایت نہ کی جائے سائبر کرائم کا آغاز 1981 ء میں اس وقت ہوا، جب BLACK BARL نے امریکہ کے اندر WARELORDS فارم بنایا جہاں پر نو عمرہیکرز کی بڑی تعداد تیار کی گئی تھی۔ اسی طرح دنیا بھر میں چند سال قبل عوام صرف رقم ،مال اور ضروری کاغذات وغیرہ کی چوری کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں درج کرواتے تھے۔

چور بعض اوقات راستے میں نقب لگا کر لوٹ مار کرتے تو کبھی گھروں، دوکانوں، فیکٹریوں میں داخل ہوکر چوری کرتے تھے۔پولیس چوری کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کرنے کے بعد چوروں، ڈاکوؤں کی گرفتاریوں کیلئے اقدامات شروع کردیتی تھی۔ چھوٹے چور چوری کرنے کے بعد گلی ، محلہ، شہراور علاقہ بد ر ہوجاتے ، جبکہ درمیانے درجہ کے چور علاقہ چھوڑ کر دوسرے ضلعوں یا صوبوں میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے ۔ جیسے ہی حالات سازگار ہوتے چور واپس اپنے اپنے علاقوں میں آجاتے اور اگلی واردات کی منصوبہ بندی شروع کردیتے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کررہی ہے ٹیکنالوجی بھی اسی رفتار سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی کی آمد سے کاروباری، سماجی، سیاسی، معاشرتی رابطوں میں تیزی آئی ہے، وہی دوسری طرف چوروں نے بھی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے وارداتیں کرنا شروع کردی ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے چوری کو دنیا میں سائیبر کرائم کا نام دیا جاتا ہے۔سائبر کرائم میں شکاری بھی کمپیوٹر ہوتا ہے اور شکار ہونے والا بھی کمپیوٹر ہوتا ہے۔مثال کے طور پر ایک دن آپ اپنے کمپیوٹر پر اپنا سارا ڈیٹا اور کام مکمل کرکے سوتے ہیں لیکن اگلے دن آپکا کمپیوٹرآپکی کوئی بھی فائل شو نہیں کرتا۔تو آپ اسے کیا سمجھیں گے؟ آپ جومرضی سمجھیں لیکن دنیا اسے سائبر کرائم کا نام دیتی ہے۔

Software

Software

یہ صرف کمپیوٹر سے کمپیوٹر کرائم نہیں ہوتا بلکہ دماغ کے کمالات بھی ہوتے ہیں۔ دنیا میں جتنی تیزی سے سائبر کرائم سے بچنے کے لیئے سوفٹ وئیر بنتے ہیں اسی رفتار سے سکیورٹی توڑنے کیلئے سوفٹ وئیر کے خلاف لائحہ عمل طے ہوتا ہے۔ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم میں بے حد اضافہ ہورہا ہے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مثبت انداز میں سائبر کرائم روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے لیکن اکثر محققین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے ملک میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو بھی قید کرنے کی کوشش کی گئی ہے”سائبر کرائمز” کے قانون کے اس بل میں کچھ لوگوں کی نظر میں قابل اعتراض نکات یہ ہیں کہ اس مجوزہ بل کے تحت حکومت ، مذہب، عدالتوں اور مسلح افوج کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکے گا اور ایسا ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

اس بل کے بارے میں سول سوسائٹی کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس بل کے پاس ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وسیع اختیارات مل جائیں گے اور لوگوں کی آزادیاں بھی محدود ہو جائیں گی۔ اسی طرح انسداد الیکٹرانک کرائمز بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے جس کے مطابق حساس اور قومی نوعیت کے ڈیٹا تک رسائی اور اسے چرانے پر 6 سال قید، 50 لاکھ روپے جرمانہ، ہیکنگ اور کمپیوٹر معلومات تک غیرقانونی رسائی پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جب کہ کسی تصویر کو بگاڑ کر انٹرنیٹ پر اس کی تشہیرکرنے پر7 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔

الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر سے کیے جانے والے مزید جرائم کی روک تھام کے لیے نئی سزاو ں کا تعین کرتے ہوئے نفرت انگیز لٹریچر وتقاریر کی تشہیر پر 5 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ اور غیر قانونی سموں کی فروخت پر 3 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ حساس آن لائن نظام میں مداخلت پر 7 سال قید اور 50 لاکھ جرمانہ اور سائبر ٹیررازم کا جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانے کی سزا کی تجویز بھی بل میں شامل ہے۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔ لہذا کچھ لوگوں نے سائبر کرائم کے حوالے سے منظور کیے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ منظور کیے گئے بل کے ذریعے عوام کی آزادی کو سلب کیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک کی اکثریت نے سائبر کرائم کے حوالے سے منظور کیے گئے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے ،اس وقت ملک بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً چار کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

Facebook

Facebook

اسی طرح پاکستان میں صرف فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سال کے ستمبر میں ایک کروڑ 54 لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی، جس کا مطلب ہے کہ ہر بارہ سیکنڈ بعد ایک نیا صارف فیس بک سے وابستہ ہو رہا ہے، جس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آن لائن سرگرمیاں کس تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔

جس تیز رفتاری کے ساتھ پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے، اسی تیزی سے پاکستان میں بھی سائبر کرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ مختلف موبائل کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے تیز ترین تھری جی انٹر نیٹ پیکجز کے بعد سائبر کرائم کی صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔ جب کہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد اس سہولت کو اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا سماج ہے، جہاں جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں اپنے نقوش زیادہ چھوڑتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میںصارفین کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیاپر لوگوں کو بدنام کرنے بے بنیاد اور من گھڑت خبریں پھیلانے، حریفوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بے ہودہ تصاویر و ویڈیوز کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہے۔ انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی کی وجہ سے ہی ملک میں بے ہودہ اور فحش مواد سرچ کرنے میں کئی بار پاکستان سرفہرست رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں۔

پاکستان میں چونکہ انٹرنیٹ کے غلط اور غیر قانونی استعمال پر کوئی خاص گرفت نہیں ہے، اس لیے انٹرنیٹ پر مجرمانہ سرگرمیاں آزادی کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ جن میں غیر قانونی طور پر کسی دوسرے کی معلومات تک رسائی، لسانیت و عصبیت کے نام پر ملک اور پاکستانیوں کے خلاف نفرت پھیلانا اور قومی تشخص، ملکی دفاع اور اسلامی اقدار کے خلاف مواد شامل ہے۔مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی میں انٹر نیٹ کے ذریعے فرقہ واریت، دھمکیوں اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے پر سزا مقرر کرنا ایک انتہائی اچھا اقدام ہے، لیکن پوری طرح اس کا فائدہ اسی وقت ہوگا، جب اس قانون پر مکمل طور پر عمل ہوگا، کیونکہ یہاں اکثرو بیشترایسا ہوتا ہے کہ قوانین منظور تو کرلیے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلی بدامنی، بے چینی اور فرقہ واریت میں انٹرنیٹ کا کافی منفی کردار ہے، حکومت اگر پوری ذمہ داری کے ساتھ منظور ہونے والے سائبر کرائمز کے قانون پر عمل درآمد کروائے تو ان تمام اسباب پر کنٹرول حاصل کر کے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

Mohammad Nawaz Bashir

Mohammad Nawaz Bashir

تحریر: محمد نواز بشیر
[email protected]