تحریر : شاہد شکیل سکس میلین ڈالر مین، گولڈ مین، سپائڈر مین، سپر مین، آئرن مین، بائیونک مین کے علاوہ ٹرمینیٹر ٹائپ فلموں کے بانی ہالی ووڈ والے ہیں اور ان کرداروں کو لوگ شاید چند سالوں بعد بھول بھی جائیں گے لیکن آج کل سائنسدان انسان کو حقیقت میں سائیبرگ مین بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ،سوال یہ ہے کہ کیا انسان سائیبرگ مین بن سکتا ہے ؟لیکن سائیبرگ مین ہے کیا اور کیسے تخلیق کیا جائے گا۔کیسپر سکائی کمپنی نے دوہزار پندرہ میں بائیونائیفیکن کمپنی کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک وسیع وعریض لیبارٹری میں انسان پر چپ پلانٹیشن ،اور تحفظ پر ایک ٹیسٹ کیا جسے مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا اس ٹیسٹ میں توانائی سسٹم،بہت کم معلومات کا محفوظ ہونا مکمل اعداد وشمار جمع نہ ہونامختصر فاصلے پر جواب موصول نہ ہونا اور دیگر ٹیکنیکل مسائل روکاوٹ بنے۔
جبکہ آج ایک برس بعد موجودہ نئی ٹیکنالوجی سے کئی مسائل اور روکاٹیں دور کر لی گئی ہیں اور مزید تحقیق جاری ہے ۔میڈیا پر اس نئی تیکنک کے نشر ہونے پر کئی سوالات اٹھائے گئے کیا انسان سائیبرگ بن سکتا ہے ،اگر چپ جسم میں منتقل ہو جائے تو زندگی محفوظ ہو جائے گی ،اور کتنے عرصے بعد ایک انسان مکمل سائبرگ بن سکے گا،کیا انسانی جسم میں اتنی طاقت ہے کہ چپس کی کاشت برداشت کر سکے اور کیا سائبر سیکورٹی اسے تحفظ دے سکتی ہے اور کتنی مقدار یا سطح پر جسم میں چپس کی پلانٹیشن کی جائے گی؟انسان کو سائبرمین بنانے پر یورپین سے سوال کیا گیا تو انتیس فیصد کا جواب نفی میں تھا ان کا کہنا ہے۔
ہم انسان ہیں اور مشین نہیں بننا چاہتے ہم اپنے جسموں میں کسی قسم کے آلات منتقل نہیں کریں گے انہیں تفصیلاً تمام سسٹم سے آگاہ کیاگیا کہ سائبرگ چپ کے کئی فوائد ہیں مثلاً حادثات کی روک تھام اور دیگر روزمرہ معاملات میں قبل از وقت آگاہی حاصل ہو سکتی ہے لیکن سب نے انکار کر دیاکہ ہم جانوروں پر ٹیسٹ کرنے کے بھی خلاف ہیں تو انسان کی توڑ پھوڑ کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔سائنسدانوں کی تحقیق جاری ہیں کہ کیسے مشینوں کو انسان بنایا جائے اور کیسے انسانوں سے مشینی کام کروائے جائیں تاکہ انسان زیادہ ذہین ،ہوشیار ، چالاک اور تیز طرار ہو سکے ، محل وقوع کی فوری شناخت کر سکے جس کی مثال ٹرمینیٹر فلم تھی اور دوسری طرف مشین کے اندر کیا منتقل کیا جائے کہ وہ انسانوں جیسے جذبات اور احساس کے علاوہ ہر قسم کا رد عمل ظاہر کرے۔
Technology
ماہرین کا کہنا ہے سب کچھ ممکن ہے کیونکہ ٹیکنالوجی خود نہیں آتی اسے انسان اپنے دماغ کی صلاحیتوں سے تخلیق کرتا ہے اور انسان کو مشین بنا سکتا ہے یا مشین کو جزوی طور پر انسان بنانے کے بعد انسانوں جیسے کام لئے جا سکتے ہیں،اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے نیٹ ورکڈ چپس انسان کے جسم میں منتقل ہو کر اسکا پرسنل ڈیجیٹل ڈیٹا محفوظ کرے گا یعنی مائکرو چپ انسان کا دوست ہوگا اور ہر منفی اور مثبت عوامل میں اسکی رہنمائی کرے گا چاول کے دانے کے سائز کا مائکرو پروسیسر مکمل نیٹ ورکنگ سے انسان کے جسم میں داخل کیا جائے تو وہ اس کا دوست ہوگا ، ابھی اس بات کا مکمل طور پر جائزہ لیا جار ہا ہے کہ انسان اپنے اندر کتنی قوت مدافعت رکھتا ہے کہ وہ تاحیات ایک اجنبی اور غیر مانوس مختصر شے اپنے اندر جذب کر سکے اسے کوئی نقصان نہ ہو اور ہر قسم کے حادثات سے محفوظ رہے۔
کیسپر سکائی کے ترجمان کا کہنا ہے اوسطاً یورپین باشندوں کی تعداد بائیو ہیکنگ یعنی چپس کی منتقلی اور قبولیت کے خلاف ہے انتیس فیصد اپنے جسم میں کسی قسم کی پلانٹیشن نہیں کروانا چاہتے جبکہ دوسری طرف ایک سروے میں انکشاف کیا گیا کہ جرمن یورپین ہونے کے باوجود زیادہ اوپن مائنڈ نہیں ہیں اور ہر نئی ٹیکنالوجی کی تہہ تک جانے کے بعد قیاس آرائیاں زیادہ کرتے ہیں مثلاً انچاس فیصد جرمنوں کا کہنا ہے ہم زندگی میں کبھی اپنے جسم کے ساتھ یا اندر کوئی مشین یا آلہ منسلک نہیں ہونے دیں گے۔
کیونکہ موجودہ دور میں انسان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو انسان کی بنائی مشین پر کیسے اعتبار کریں مشین کسی بھی وقت فیل،ڈیفیکٹ یا ڈیڈ ہو سکتی ہے اس صورت میں ہم ان مشینوں کو اپنا دوست سمجھیں یا دشمن اور جان بوجھ کر موت کو گلے نہیں لگانا چاہتے زندگی بار بار تو نہیں ملتی۔
Microprocessor
حالیہ رپورٹ کے مطابق ماہرین کی ریسرچ کامیاب ہو چکی ہے اور انہیں یقین ہے کہ انرجی کی وافر مقدار میں فراہمی ممکن ہے کیونکہ مائکرو پروسیسر طاقت ور ہیں زیادہ ڈیٹا جمع کر سکتے ہیں اور منظم طریقے سے طویل فاصلے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے یعنی ایک ذہین کمیونیکیشن نیٹ ورک سسٹم مکمل طور پر تیار ہو چکا ہے اور انسان پر عنقریب ٹیسٹ کیا جائے گا ۔ ماہرین کا کہنا ہے باڈی نیٹ ورک مثلاً نبض کی فریکوینسی ،جسمانی درجہ حرارت،باڈی لینگویج ،آنکھوں کا رابطہ ،تھکاوٹ،غصہ ،پریشانی اور خطرات پر گہرائی سے تجزیہ کیا گیا اور کامیابی حاصل ہوئی باڈی نیٹ ورک چوبیس گھنٹے فنکشن کرے گا ،مثلاً چپ انسان کو انتباہ کرے گی کہ آپ بہت زیادہ تھکے ہوئے ہیں کار ڈرائیو نہیں کر سکتے یا کئی معاملات میں بذریعہ الارم وارننگ دی جائے گی۔
ٹیکنیکل زبان میں اسے ایفیکٹو کمپیوٹنگ کہا جاتا ہے اور بہت جلد متعارف کروایا جائے گا،اسی مناسبت سے برطانیہ میں پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کئی پولیس والوں کو مِنی واچ سے وارننگ دینے کا عمل جاری ہے کہ آپ تھک چکے ہیں مزید ڈیوٹی سر انجام نہیں دے سکتے وغیرہ۔ماہرین کا کہنا ہے ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائمز کا بھی آغاز ہوتا ہے اس لئے تمام معلومات کو انتہائی خفیہ اور محفوظ رکھنا لازمی ہوتا ہے نہیں تو جرائم پیشہ افراد کیلئے نئی ٹیکنالوجی ایک کھیل سے زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
اس لئے مینوفیکچررز کو تمام خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے مضبوط ، خفیہ اور جامع سیکورٹی کے ساتھ چپس تیار کرنا ہونگے تاکہ کم سے کم خطرات کا خدشہ ہو اس کیلئے ایک نئی تیکنیک سے تیار کردہ پاس وورڈ تیار کئے جائیں گے جو موجودہ دور سے بالکل مختلف ہونگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سائنس دان انسان کو مشین بنا سکتے ہیں یا نہیں اور مشین کو انسان یا نہیں؟۔