سائبر کرائم، ایف آئی اے کو ایک لاکھ شکایت موصول

Internet

Internet

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں جہاں سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، وہیں سائبر کرائمز خصوصاﹰ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔ پچھلے سال سائبر کرائمز کے ایک لاکھ سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔

پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو سال 2021 میں ایک لاکھ سے زائد شکایات سائبر کرائمز کے حوالے سے موصول ہوئی ہیں جس سے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے اس طرح کے جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انگریزی روزنامہ ڈان کو ڈی جی ایف آئی اے ثناءاللہ عباسی نے بتایا کہ ان کے ادارے کو پہلی جنوری 2021 سے لے کر 31 دسمبر 2021 تک ایک لاکھ دو ہزار 356 شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے تئیس فیصد شکایات میں فیس بک کو بحثیت میڈیم استعمال کیا گیا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے مزید کہا کہ ان شکایات میں سے 80 ہزار 641 کو تصدیق کے لیے بھیجا گیا اور ان میں سے 15 ہزار 932 کو اس قابل سمجھا گیا کہ ان پر تحقیقات کی جائے۔ ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر بارہ سو دو مقدمات درج کیے گئے اور تیرہ سو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان شکایات میں 32 فیصد شکایات طالب علموں کی طرف سے درج کرائی گئی جبکہ 25 فیصد شکایات کا تعلق مالی جرائم سے تھا۔

ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ 2018 میں اوسطاً ہر ماہ 4031 شکایات ایف آئی اے کو موصول ہوتی تھی جبکہ 2021 میں ایسی موصول شدہ شکایات کی تعداد ماہانہ آٹھ ہزار چھ سو اٹھاسی تھی۔

خواتین کے لیے مشکلات
ناقدین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے پاکستانی خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے اور بہت سارے سماج دشمن عناصر اس جدید ٹیکنالوجی کو خواتین کو ہراساں یا ان کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے ادارے کو کچھ ہی دنوں پہلے ایک لڑکی کی طرف سے شکایت موصول ہوئی کہ دو لڑکے جو اس کے جاننے والے تھے، انہوں نے دوستی کا جھانسا دے کر اس لڑکی کی نازیبا تصویریں انسٹاگرام پر اپلوڈ کر دیں۔ متاثرہ لڑکی نے ایف آئی اے سے رابطہ کیا اور ایف آئی اے نے فوری ایکشن لیتے ہوئے دونوں ملزمان کو گرفتار کرلیا۔ دونوں ملزمان کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے اور ایف آئی اے معاملے کی بھرپور جانچ پڑتال کر رہی ہے اور اس کیس میں ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے جائے گا۔‘‘

اس اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے سب سے زیادہ شکایات خواتین کی طرف سے موصول ہو رہی ہیں اور یہ خواتین کے لیے بہت بڑا عذاب بن گیا ہے، جس میں خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ ’’کچھ خواتین ہمت کر کے آگے بڑھتی ہیں اور شکایت درج کرا دیتی ہیں لیکن آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا مشرقی معاشرہ ہے جہاں عورت کو بہت زیادہ دبا کے رکھا جاتا ہے اور ایسے واقعات کو عزت کا مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنی عزت کو بچانے کے لیے مذاکرات یا صلح صفائی پر آ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملزمان کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں ہو پاتی۔‘‘

سائبر حملوں کو روکنے کی کوشش
اس عہدیدار نے اس تاثر کو زائل کیا کہ ملزمان کو سزا دینے کی شرح بہت کم ہے۔ ’’جو مقدمات درج ہوتے ہیں ان کو تفتیش سے گزرنا ہوتا ہے اس کے بعد چالان جمع ہوتا ہے اور عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ اس میں دو تین اور یہاں تک کہ چار سال بھی لگ جاتے ہیں۔‘‘

اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ادارے کے پاس بہت ساری ایسی شکایات ہیں جہاں سابق شوہر نے اپنی بیوی کی نجی تصاویر یا ویڈیو کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا اور اس کو بد نام کرنے کی کوشش کی۔ ’’ایسے بھی واقعات ہیں جہاں کسی مرد یا لڑکے نے کسی لڑکی یا عورت سے دوستی یا محبت کی اور بعد میں جب ان کے تعلقات خراب ہوگئے تو انہوں نے ان کی نجی تصاویر یا ویڈیوز کو اپلوڈ کرنے کی دھمکی دی یا ان کو بلیک میل کرنے کی دھمکی دی۔‘‘