ڈی چوک، اخلاقیات کا قبرستان

D Chowk Protest

D Chowk Protest

تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی
ہم اکثر سوچا کرتے تھے ملک میں بے راہ روی اور فحاشی تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا میڈیا تو خیر اس کے فروغ کا ذمہ دار ہے ہی علماء کرام نے بھی چپ سادھ لی ہے مگر جب سے یہ دھرنا ہوا ہے ہم بڑے شرمسار ہیں سوچتے ہیں کاش یہ علماء چپ ہی رہتے کچھ تو عزت رہ جاتی جس طرح کی ان نام نہاد علماء نے تقریریں کی ہیں ،گالیاں اور دھمکیاں دی گئیں یہ تو انسانیت سے ہی خارج ہیں کجا کہ نسلوں کی تربیت کریں اس سے پہلے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے ہو چکے ہیں جنہوں نے ڈی چوک پہنچ کر اوئے نواز شریف سے ابتدا کی مطالبات انہوں نے بھی رکھے تھے لیکن جدال و قتال کا حکم جاری نہیں کیا تھا ہزاروں لوگ سینکڑوں دنوں تک دھرنے میں جاتے رہے۔

اس دھرنے کو مجرے اور فحاشی تک کے نام دیے گئے لیکن اتنی گندی زبان تب بھی استعمال نہیں ہوئی جتنی مولوی خادم حسین نے کی کیا یہ ڈی چوک کا اثر تھا ؟جہاں جا کے اخلاقیات دفن ہو جاتی ہیں عمران خان کے دھرنے میں تو قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں جب کہ اس دھرنے کو مکمل سپورٹ کیا گیا گاڑیاں بھی مہیا کی گئیں رقم دی گئی لیکن علماء کو اسلام آباد کی فضائیں اپنی طرف کھینچ رہی تھیں جس طرح سابق مشرقی پاکستانیوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر پٹ سن بچھی نظر آتی تھی اس طرح ان کو بھی ڈی چوک پہ غالباً حلوے کی دیگیں نظر آ رہی تھیں اسی لیے انہوں نے اسلام آباد چھوڑتے ہوئے اپنی زیر استعمال اسلام آباد کی اس مسجد کو بھی نہ بخشا مظاہرین واپس جاتے ہوئے مسجد سے شامیانے ، صفیں ، دریاں کتابیں پنکھے تک اٹھا کر لے گئے پردے بھی اتار لیے ہمارے کچھ رشتہ دار جو اسلام آباد فوتیدگی پر گئے ہوئے تھے وہ بتاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے یہ لوگ کسی وبا کی طرح پھیل گئے۔

ایسا لگتا تھا غنیم نے حملہ کر دیا ہے یا یہ پکنک منانے آئے ہیں جگہ جگہ ٹولیوں کی صورت میں کھابے چل رہے تھے ،ہنسی مذاق،ٹھٹھول بازی دہن اس وقت بگڑا جب نان اور حلوے کی دیگیں تھانوں میں جمع ہونے لگیں یہ کھاتے پیتے لوگ جن کی صحت سے ہی نظر آ رہا تھا ”فقر نہ فاقہ عیش کر کاکا ” اسلام آباد میں چار دن کے اندر اتنی گندگی پھیلا آئے ہیں جس کو سی ڈی اے کے 600اہلکاروں نے پانچ کچرہ گاڑیوں اور چار پانی کے ٹینکروں کی مدد سے صاف کیا کہیں پتھروں کے ڈھیر کہیں ڈنڈوں اور اینٹوں کے انبار کہیں پانی کی خالی بوتلیں فوڈ کے خالی ڈبے گندے شاپروںکا ڈھیر غرض یہ کیا کیا نشانیاں وہاں نہیں چھوڑ آئے جس نے پوری قوم کو شرمندہ کر دیا یہ تو اچھا ہوا جو یہ ڈنڈہ ” چھٹنے ” سے پہلے ہی ڈنڈے چھوڑ کر بھا گ آئے ورنہ ایک اور تماشہ لگ جانا تھا۔ میرے بچوں کو پڑھانے مولوی صاحب آتے تھے اب بھی ہم نے ”ختم شریف ” کرانا ہو تو بلوا لیتے ہیں اتفاق سے وہ کل آئے ہوئے تھے میں نے پوچھا مولوی صاحب آپ بھی دھرنے میں گئے تھے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگے نہ بی بی یہ اونچے لیول کا کھیل ہے ہم غریب لوگ ایسے کاموں سے دور رہتے ہیں۔

Politics

Politics

اصل میں یہ ساری سیاست ہے اور اب ہر چیز میں سیاست گھس گئی ہے دکھ اس بات کا نہیں کہ انہوں نے گالیاں دیں دکھ اس بات کا ہے کہ مظاہرین جواب میں کہتے تھے لبیک یا رسول اللہ،اسلام کو جتنا نقصان ان سیاسی ملائوں نے پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا جو اپنی ہی فوج کو دھمکیاں لگا رہے تھے تمھارے بچوں کو تمھارے نوکر ماریں گے تمھارے صفائیاں کرنے والے تمہیں قتل کریں گے کیا یہ ملک کے سجن ہیں؟ یہ تو دشمنوں کا کام آسان کر رہے ہیں حضو صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر صحابہ کے ساتھ خندقیں کھودا کرتے تھے یہ کرسیوں پہ بیٹھے اتنے موٹے پیٹوں والے ملاحلوہ ختم ہوتے ہی بھاگ آئے کیا ان کے مطالبات پورے ہوئے؟ ایک بھی نہیں ہوا جو شقیں شامل کی گئیں۔

وہ پہلے سے ہی موجود ہیں یہ سارا کھیل کل بھوشن یادیو کے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے رچایا گیا تھا جو پورا نہیں ہوا بلکہ مزید جگ ہنسائی کروائی گئی ہے ورنہ ستائیس دن بعد کون سا چہلم ہوتا ہے اور بد زبانی سے اسلام کی کیا خدمت کی گئی ہے اپنے مطالبات کے لیے علمائے کرام وفد کی صورت میں حکومت کے پاس جا کر اپنے مطالبات پیش کرتے اور عزت و احترام سے گھروں کو واپس آتے مسلمانوں کا خون بہانے کی ترغیب دینا کس قدر خوفناک ہے سندھ کے حکمران طبقہ میں ایک طبقہ جامان سمہ کے نام سے گذرا ہے اس کی حکومت 752ہجری سے 927ہجری تک سندھ میں رہی ٹھٹھہ اس کا دارلحکومت تھا اس خاندان کے آخری حکمرانوں میں جام نظام الدین نہایت ہی عادل و مرد مسلمان حکمران گذرا ہے۔

اس کا عہد نہایت ہی با امن سمجھا جاتا ہے اس کو اسلام اور مسلمانوں کا اس قدر خیال تھا کہ اس کے عہد میں شائد ہی کوئی بد قسمت مسلمان بغیر صوم و صلوة کے رہا ہو وہ ہر ہفتے اپنے اصطبل میں جاتا اور گھوڑوں کی پیشانی پر کمال شفقت سے ہاتھ پھیر کر کہتا ،اے غاذیان عرصہ ووفا میں نے تم پر کبھی سواری نہیں کی اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ملک کے چاروں طرف شاہان اسلام کی حدود ہیں زبان بے زبانی سے دعا کرو کہ بغیر کسی شرعی حجت کے مجھے کسی طرف نہ جانا پڑے تا کہ مسلمانوں کے خون ناحق میں قیامت کے دن گرفتار نہ کیا جائوں یہ تھے اسلام کے سچے خیرخواہ۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی