امریکی (جیوڈیسک) وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے نمٹنے میں مصر کا اہم کردار ہے۔ شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کے لیے وسیع تر عالمی اتحاد کی تشکیل کے کوششوں کے سلسلے میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری سنیچر کو مصر پہنچے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی اور مصر کے صدر عبدالفتح السیسی سے ملاقات کے بعد کہا کہ مصر کھلے عام دولتِ اسلامیہ کے نظریے کی مذمت کر سکتا ہے اور امریکہ کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصر کی حمایت کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ ’مصر شدت پسندی کے خلاف لڑائی میں فرنٹ لائن پر ہے، خاص طور پر جب صحرائے سینائی میں شدت پسندوں کے خلاف لڑائی ہو۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ مصر اسلامی دنیا کا ثقافتی اور فکری دارالحکومت ہے اور جس نظریے کا دولتِ اسلامیہ پرچار کرتی ہے، اس کی کھلے عام مخالفت کرنے میں مصر کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ مصر اسلامی دنیا میں اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے وہاں دینی اداروں میں شدت پسند نظریات سے نمٹنے کے حوالے سے کام ڈالے۔ دوسری جانب فرانس بھی پیر کو ایک کانفرس کا انعقاد کر رہا ہے جس میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد کے لیے مزید حمایت کی جائے گی۔
سنی شدت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ اس وقت عراق اور شام میں سرگرم ہے اور اس نے حال ہی میں دو امریکی شہریوں کو بھی ہلاک کیا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کی جانب سے اس گروہ کو فضائی حملوں میں نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دورے کے آخری مرحلے میں جان کیری کی کوششوں سے اب تک سعودی عرب اور قطر سمیت دس عرب ممالک نے
جان کیری نے جمعے کو یہ بھی واضح کیا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران اس اتحاد کا حصہ بنے۔ انھوں نے اس تاثر کو بھی رد کیا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی صدر باراک اوباما کی نئی پالیسی پر عرب ممالک کا ردعمل مایوس کن رہا ہے۔
ترکی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دولت اسلامیہ کے خلاف عرب ممالک کے ردعمل سے مطمئن ہے لیکن وہ دولت اسلامیہ کے خلاف بننے والے اتحاد میں ایران کی شمولیت کو موزوں نہیں سمجھتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ’شام اور دیگر علاقوں میں ایران کی سرگرمیاں‘ ہیں۔ایران شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کا حامی ہے جبکہ امریکہ، متعدد یورپی اور عرب ممالک اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے بدھ کو اس شدت پسند گروہ کے خلاف کارروائی کی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے جبکہ سی آئی اے نے کہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے کلِک جنگجوؤں کی تعداد ماضی کے اندازوں سے تین گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ براک اوباما نے اپنی تقریر میں پہلی مرتبہ کلِک شام میں بھی دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لیے خطرہ بننے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈ نکالیں گے چاہے وہ کہیں بھی چھپے ہوں۔
امریکہ عراق میں پہلے ہی دولتِ اسلامیہ کے خلاف 150 سے زیادہ فضائی حملے کر چکا ہے اور اس نے عراقی حکومت اور کرد فورسز کی مدد کے لیے سینکڑوں عسکری مشیر بھی بھیجے ہیں تاہم وہ اس کارروائی میں اپنی زمینی فوج نہیں بھیجنا چاہتا۔ جمعے کو جان کیری نے ترک صدر رجب طیب اردوگان اور وزیراعظم احمد داؤداوگلو سے ملاقاتیں کیں تاکہ ترکی کو بھی اس عالمی اتحاد کی حمایت پر راضی کیا جا سکے۔ ترکی نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے فضائی اڈے دینے سے انکار کیا ہے۔
اربیل میں موجود بی بی سی کے جم میور کے مطابق اس فیصلے کی ایک وجہ شدت پسند گروپ کی جانب سے سفارتکاروں سمیت 49 ترک باشندوں کو یرغمال بنانا قرار دے رہے ہیں۔ ادھر فرانس نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف عسکری کارروائی میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پیر کو اس عالمی مہم کے سلسلے میں بات چیت کی میزبانی کرے گا۔
حالیہ مہینوں میں دولتِ اسلامیہ نے شام کے مشرقی علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے جبکہ عراق میں مزید قصبات، فوجی اڈوں اور ہتھیاروں پر قبضہ کیا ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے رواں برس جون میں اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا اور گروپ کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔