تحریر : میرافسر امان آج کل بین القوامی میڈیا میں داعش کی سرگزشت عام سنی جا رہی ہے۔ اس کے مخالف تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ اس نے کیسے جنم لیا۔ اس کی قوت کتنی ہے۔ اس کے مقاصد کیا ہیں۔ اس سے نپٹا کیسے جائے۔پاکستان میں اس کا کتنا اثر ہے۔ صلیبی اور کچھ اسلامی عناصر کی پھیلائی ہوئی اطلاعات اور غیرجانبداردنیا میں دستیاب معلومات کے مطابق اس کا تجزیا کرتے ہیں۔ اس قبل سے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے جو کام اسلام کی تڑپ رکھنے والے جہادیوں نے شروع کی تھی اس کو مسلمان ملکوں میں صلیبیوں کی حد سے بڑی ہوئی مداخلت اور ان کے مفادات نے بڑی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ جب یہ تنظیمیں کچھ کر گذرنے کے قابل ہوتی ہیں اور ان کی حمایت مسلم دنیا میں بڑتی ہے تو ان میں اپنے زر خرید بندے ڈال کر اس کے نام سے مخالفوں کے گلے کاٹنے کے ایسے ناپسندیدہ اقدام کرائے جاتے ہیں جو ان تنظیموں کی بدنامی کا بعث بنتے ہیں۔
یہ کھیل ساری اسلامی دنیا میں کھیلا جا رہا ہے۔ مسلم دنیا کی جمہوریت پسند اکثریت اس بات پر یکساں نظریہ رکھتی ہے کہ تبدیلی لوگوں کی عام رائے سے آنی چاہیے نہ اسلحہ کے زور پر یا خودکش حملوں کے ذریعے جس بے گناہ عوام بھی نشانہ بنتی ہے ۔ اصل میں تبدیل وہ ہی کامیاب ہوتی ہے جو دلوں کو تبدیل کر کے آتی ہے۔ پائیدار تبدیلی دنیا میں رائج جمہوری طریقہ ہی ممکن ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جن مسلم ملکوں میں جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کی کوشش کی گئی وہاں صلیبیوں نے اپنے پٹھوں حکرانوں کو ملا کر اس کا راستہ روکا۔ اس کی مثال میں ہم الجزائر اور مصر کی پیش کر سکتے ہیںجہاں عوام کی رائے سے جو تبدیلی آئی اسے فوج کے ذریعے روکاگیا۔ دوسرا ظلم کی جب انتہا ہو جاتی ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مفروضے پر عمل کرتے ہوئے لوگ ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں۔ باقی اسلامی دنیا کو اس وقت تجزیے سے ایک طرف رکھتے ہوئے، ہم شام اورعراق کی بات کرتے ہیں جہاں داعش کا ان ملکوں کے کچھ حصہ پر قبضہ ہے۔
صلیبیوں نے پہلے تو ان مسلم ملکوں میں اپنے پٹھو حکمرانوںکو عوام کی گردنوں پر سوار کیا ہے۔ شام میں اقلیتی خاندان کے حکمران ١٩٧٠ء سے قابض چلے آ رہے ہیں۔ دادا، باپ اور اب بیٹا بشار الاسداکثریت پر ظلم کرکے اسے اقتدار میں نہیں آنے دیتا جس کی وجہ سے آج تک شام میں جنگ جاری ہے۔ عراق پر تو صلیبیوں حملہ کیا اور جواز یہ تھا کہ ماس ڈسٹرکشن کے ہتھیار عراق کے پاس ہیں جو بعد میں جھوٹ نکلا۔اگر سروے کی بات کی جائے تو اسلامی دنیا کے عوام صلیبیوں کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ دنیا کے آزادذرائع نے جتنے بھی عوامی سروے کرائے ہیں اس سب میں صلیبیوں کی سخت مخالف سامنے آتی رہی ہے غالب لوگ صلیبیوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ شام میں اقلیتی فرقے کی وجہ جنگ ہو رہی ہے اور لوگ داعش کی طرف متوجہ ہوئے۔ عراق میں جنگ کے بعد سنی شعیہ فسادات کرائے اورنوری المالکی کو اقتدار پر بٹھایا اور اس نے سنی اکثریت کو دیوار سے لگایا جس کی وجہ سے لوگ داعش کے ہمدرد بنے ۔ان دونوں ملکوں کی کچھ زمین پر داعش قابض ہے ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے۔
ISIS
پہلے داعش نے شام میں رقعہ میں اپنا دار الحکومت قائم کیا اور عراق میں داخل ہو کر اس کی ١٦ ڈویژ ن فوج کو شکست دے کر موصل اور انبار کے صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ عراقی فوج کی سنی اکثریت نے سابق نوری المالکی کے ظلم کی وجہ سے اسلحہ سمیت داعش میں شرکت کی۔ داعش نے تیل سستے داموں مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے خزانے میں کثیر ڈالر جمع کر لیے ۔ کرد فوج کے سربراہ کے مطابق داعش کی فوج کی تعداد ٢ لاکھ کے قریب ہے ۔داعش کیسے وجود میں آئی تو اخباری اطلاع کے مطابق ١٩٩٩ء میں قائم ہونے والی جماة التوحید و الجہاد اس کی بنیاد ہے۔یہ تنظیم ٢٠٠٤ء میں ” قیادت الجہادفی البلادرافضین” کا نا اختیار کر کے القاعدہ کی اتحادی بنی۔٢٠٠٦ء میں دیگر گروپ جن میں جیش اہل سنہ و الجماعت بھی شامل تھی اس کا اہم ذمہ دار ابو بکر البغدادی تھا۔ اس کے بعد ان تنظیموں نے شوریٰ کونسل قائم کی جو پہلے دولت اسلامیہ عراق بنی۔
ابوبکر کی شام میں کاروائیوں کے بعد اس کو ” دولت اسلامیہ عراق، شام بنا دیا گیا جس انگریزی میں آئی ایس آئی ایس نام رکھا گیا۔ ٢٠١٤ء میں اس نے نام بدل کر” دولت اسلامیہ” رکھ لیا اور پوری امت مسلمہ کو اس خلافت پر بیعت کا حکم جاری کر دیا۔ اب تک عراق، الجزائر، لیبیا ،مصر ،پاکستان کی جنداللہ، چیچن ،ترکستان ،الجزائر اور افغانستان کے چھوٹے چھوٹے گروپ داعش کے حامی بن چکے ہیں۔ جبکہ بڑے جہادی گروپس جن میں القاعدہ، شام کی سرین آرمی اور اسلامک موومنٹ اورصومالیہ کی الشباب، پاکستان کے لشکر جھنگوی نے داعش سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے،افغان طالبان نے کہا ہے وہ صرف اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اس کے باہر ان کا کوئی ایجنڈا نہیں۔پاکستان میں بھی داعش کی کوئی حقیقت نہیں ٹی ٹی پی نے بھی اس کی حمایت نہیں کی صرف ٹی وی پر اور کچھ دیواروں پر داعش نظر آتی ہے۔ حکومت کو بھی یہی اطلاعات ہیں۔ ادھر صلیبی دفاعی ماہرین کو داعش کی شام اور عراق میں پھیلتے ہوئے اثر و نفوز پر سخت پریشانی ہے۔ امریکا میں کانگریس نے داعش کے خلاف ٣ سالہ جنگ کی منطوری کے لیے کہا ہے۔
ایران عراق اور شام نے دولت اسلامیہ کو شکست کی لیے مشترکہ حکمت عملی کا فیصلہ کیا امریکہ اور ایران پہلے ہی داعش پر ہوائی حملے کر رہے ہیں۔ امریکا کی قیادت میں مغربی اورعرب ریاستوں کا ایک اتحاد بھی داعش کے خلاف کام کر رہا ہے۔ امریکا اور ایران کے فضائی حملوں کے بعد اتحادی ملکوں نے عراق میں داعش سے زمینی لڑئی کے لیے اپنے ١٥٠٠ فوجی بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔یہ عراقی فوج کی تربیت کے ساتھ ساتھ امریکا کے فوجیوں کے ساتھ مل کر براہ راست جنگ میں بھی حصہ لیں گے۔ آزاد دنیا اس بات پر غور کر رہی ہے کہ افغانستان میں شکست کے بعد اتحادی ایک بار پھر یک جا ہوکر داعش کے جہادیوں کو شکست دینے کی تدبیریں کر رہے ہیں ۔١٣ سال تک ظلم ڈھا ڈھا کر افغان فاقہ مست جہادیوں کو شکست نہ دے سکنے والے اتحادی اب دولت سے مالا مال داعش کے جہادیوں کو شکست دے سکیں گے؟۔ دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے۔