دادو میں شادی کے گھر کو ماتم کدہ بنانے والوں کا ذمہ دار بجلی کا محکمہ ہے۔ حلیم عادل شیخ

Karachi

Karachi

کراچی : مسلم لیگ سندھ کے صدر وسابق صوبائی وزیر ریلیف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ دادو میں شادی کے گھر کو ماتم کدہ بنانے والوں کا ذمہ دار بجلی کا محکمہ ہے۔ موجودہ سانحات قدرتی آفات نہیں بلکہ انسانی لاپرواہیوں کا نتیجہ ہیں ۔یہ بات انہوں نے دادو کے علاقے گوٹھ کنڈوچھکی، شاہ محمد لغاری ،گوٹھ بید اور گوٹھ رام کے دورے کے موقع پر لوگوں سے ملاقاتوں میں کہیں انہوں نے اپنے دورے کے دوسرے روز بھی بس میں جھلس کرجابحق افراد کے لواحقین سے ملاقات کیں۔

انہوں نے جائے حادثہ پر پہنچ کر میڈیا کو بجلی کی لٹکتی ہوئی تاروں کو دکھایا اور کہا کہ یہ بجلی کی لٹکتی تاریں مقررہ اونچائی پرہوتی تو اس سانحہ سے مرنے والوں کو بچا جاسکتا تھا۔ میڈیا اس بات کو اٹھائے کہ بجلی کی تاریں مقررہ حد سے نیچے کیوں ہیں تاکہ مزید ایسے واقعات سے بچا جاسکے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بس میں آگ لگ کر جھلس کر جابحق ہونے والوں کی ذمہ داری محکمہ بجلی پر عائد ہوتی ہے، اور شادی کے گھر میں جتنی بھی ہلاتیں ہوئیں ہیں ان سب کے قاتل محکمہ بجلی کے افسران ہیں۔عابد شیر علی کی جانب صوبو ں میں واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے پولیس اور متعلقہ اداروں کے ذریعے ڈرایادھمکایا توجاتاہے ۔مگر اس ادارے کی بہتر ی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیئے جاتے ہیں۔ عوام کو ایسے سانحات سے بچانے کے لیے محکموں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے ایماندار اور انسانیت کی خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہے ،ناکہ ایسے کرپٹ لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنے معاملات سے پہلو تہی کرتے ہوئے الزام بھی بے گناہ مرنے والوں کے سرتھونپ دیتے ہیں۔

کبھی سڑکوںپر تیزرفتاری کے سبب ، کبھی ریلوئے پھاٹک پرکئی لوگ مارے جاتے ہیں تو کبھی سلنڈر پھٹنے سے درجنوں افراد جھلس کر مارے جاتے ہیں یا پھر گلی محلوں میں ایسے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں کہ معصوم بچے کھیلتے ہوئے کھلے ہوئے مین ہول میں جاگرے جس سے نظر آتا ہے کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کی بجائے غفلت پر غفلت کا مظاہرہ کیئے جارہی ہے ۔انتظامیہ کی بے حسی اور لاپرواہی کے نتیجے میں آئے دن عوام موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ۔اس موقع پر ان کے ہمراہ لیگی رہنما عامر پٹھان ،صدام کنبر ،نور محمد نوڑی ،عمران علی ،سلیم لاکھو،مومن خان اور دیگر بھی موجود تھے ۔انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ کے حساب سے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے متعلقہ اداروں کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا،اور جو زمہ داریاں انہیں دی گئی ہیں انہیں ایمانداری سے نبھانا ہوگا جبکہ ایسے سانحات میں ذمہ داروں کے خلاف ایکشن اس لیے نہیں لیا جاتا کیوںکہ یہ تمام لوگ سفارشی اور اعلی ٰ حکام کے قریبی لوگ ہوتے ہیں۔