واشنگٹن (جیوڈیسک) اعلیٰ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائیوں پر روزانہ 80 لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں اس کے باوجود بیشتر علاقوں میں داعش کا اثر رسوخ برقرار ہے۔
دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی کارروائی کے تین ماہ کی تکمیل پر امریکہ کے وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کانگریس کو بتایا کہ شدت پسندوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے جبکہ کچھ علاقوں میں جنگجوؤں کو پسپا بھی کیا گیا ہے، امریکی اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں نے تنظیم کے قائدین اور اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنایا ہے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اب بھی عراق اور شام کے بڑے حصے پر شدت پسند تنظیم کا اثرورسوخ باقی ہے۔
کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جیک ڈیمپسی نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے پاس تقریباً 31 ہزار جنگجو ہیں جبکہ عراق میں اس وقت 1400 امریکی فوجی موجود ہیں اور مزید 1500 فوجی وہاں بھیجے جا رہے ہیں لیکن تاحال عراق میں موجود امریکی فوجی صرف مشاروتی اور تربیتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ جنرل ڈیمپسی نے کہا کہ امریکہ مزید پیچیدہ کارروائیوں میں عراقی افواج کی مدد کے لیے امریکی فوجی بھیجنے پر غور کر رہا ہے تاہم امریکی صدر براک اوباما فی الحال اس کے حق میں نہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ہی امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے داعش کے خلاف مہم جاری رکھنے کے لیے کانگریس سے مزید ساڑھے 5 ارب ڈالر جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔