آج کے نئے پاکستان میں سرکاری اداروں سمیت تقریبا ہر پرائیوٹ سیکٹر میں بھی گدھ نما انسان اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ موجود ہیں جنکی کوشش ہے کہ یہ گلا سڑا اور بوسیدہ نظام یونہی چلتا رہے تاکہ وہ اور انکی نسلیں غریب عوام کے خون اور پسینے کو استعمال کرکے خوشحالی کی منزلیں طے کرتے رہیں مگران سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں چند لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو کہیں بھی اور کسی بھی عہدہ پر موجود ہوں وہ لاکھ مشکلات کے باوجود عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھائے رکھتے اور وہ نیکی کا کام بار بار کرتے ہیں خواہ اسکے لیے انہیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا مگروہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی تدبیریں کرتے رہتے ہیں اور پھر انکے راستے میں آنے والی مشکلات بھی خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔
ایسے ہی لوگوں کے لیے مولانا روم فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا اوراندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیاکیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس گیااور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا .ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ ٹھوکر لگی اور وہی دوبارہ کیچڑ میں گر گیا کیچڑ سے اٹھ کر وہ شخص ایک بار پھر گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے مسجد جانے کیلئے دوبارہ گھر سے نکل آیا .اپنے گھر کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا جو اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ تھامے کھڑا تھاچراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل دیا .اس بار چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وہ بخیریت مسجد تک پہنچ گیا مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔
نمازی اسے وہیں چھوڑ کر مسجد میں داخل ہو گیا اور نماز ادا کرنے لگا نماز سے فارغ ہو کر وہ نمازی مسجد سے باہر آیا تو اس نے دیکھا چراغ والا شخص اس کا منتظر ہے تاکہ اسے دوبارہ چراغ کی روشنی میں گھر تک چھوڑ آئے جب نمازی گھر پہنچ گیا تو اس نے اجنبی سے پوچھا آپ کون ہیں ؟اجنبی بولا سچ بتاؤں میں ابلیس ہوں نمازی کی حیرت کی انتہا نہ ر ہی تو اس نے پوچھا تجھے تو میری نماز رہ جانے پر خوش ہونا چاہئے تھا پھر تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک کیوں لایا ؟ابلیس نے جواب دیا جب تجھے پہلی ٹھوکر لگی تو اللہ نے تیرے عمر بھر کے گناہ معاف فرما دیے جب دوسری ٹھوکر لگی تو تیرے سارے خاندان کو بخش دیا جس پرمجھے فکر ہوئی کہ اب اگر تو ٹھوکر کھا کر گرا تو کہیں اللہ تیرے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے اس لئے چراغ لے کر آیا ہوں کہ تو بغیر گرے مسجد تک پہنچ جائے ۔ایسے ہی ہمارے ایک عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے دوست شاکر عمر گجرجو صدر ہیں ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے اور ہر وقت اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کو خالص دودھ کیسے ملے گااور اسی سلسلہ میں انہوں نے حکومتی سطح پر حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی کی ہے انکا ایک خط میں اپنے کالم میں بھی شامل کر رہا ہوں جو انہوں نے حکومت کو لکھا ہے۔
محترم جناب یونس ڈھاگا سیکریٹری کامرس عنوان : ملکی ضروریات پوری کئے بغیر مویشوں کے چارے (فیڈ) کے اجناس کی ایکسپورٹ اور انڈسٹریز کے پلانٹ میں بھوسے اور دیگر اجناس کا بطور ایندھن استعمال السلام و علیکم جناب عالی
ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن ایک فلاحی باڈی ہے جسکا مقصد رنگ و نسل اور کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق ، منافرت اور سیاست سے بالاتر ہوکر پاکستان کے ڈیری اور کیٹل فارمرز کے وسیع تر مفادات کے لئے کام کرنا ہے۔مذکورہ ایسوسی ایشن پاکستان کے فارمرز کے مسائل کے لئے کوشاں ہے کیونکہ ہمارا عزم ہے خوشحال فارمر خوشحال پاکستان عرض ہے کہ پاکستان میں دودھ اور گوشت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجوہات ملکی ضروریات پوری کئے بغیر اجناس کی غیر ممالک ایکسپورٹ اور دوسری اہم وجہ اینٹوں کی بھٹیوں ، سالوینٹ پلانٹس ، سیمنٹ فیکٹریوں اور دیگر انڈسٹریز میں مویشیوں کے چارے (فیڈ) میں استعمال ہونے والے بھوسہ اور دیگر سستے اجناس کا جلایا جانا ہے اور تیسری اہم وجہ مویشیوں اور اجناس کا افغانستان اور ایران اسمگل ہونا ہے۔
ہم مکئی،دلیہ،الفاالفا ھے،روڈگراس،،بھوسہ اور دیگر اجناس UAE, سعودیہ، عمان، کویت،قطر اور دیگر ممالک ایکسپورٹ کررہے ہیں جبکہ ہماری ملکی ضروریات پوری نہیں ہیں بلکہ ہم سویابین چھلکا و کھلی،پام کرنل کھلی، کوکونٹ کھلی اور دالوں کی اٹی امپورٹ کررہے ہیں امپورٹ سے زر مبادلہ باہر جارہا ہے اور ہماری فصلیں سستی ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ اور انڈسٹریز کے پلانٹس میں بطور ایندھن استعمال ہورہی ہے جس کی وجہ سے مجبورا” فارمرز مہنگے امپورٹڈ اجناس خرید رہا ہے اور لائیو اسٹاک سیکٹر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
دودھ اور گوشت کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کی بنیادی وجوہات یہی ہیں ظاہر ہے ہم لائیواسٹاک کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود دودھ اور گوشت کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہوسکیں گے اگر مویشیوں کے چارے کی اجناس کی امپورٹ پر سے ٹیکس و ڈیوٹی ختم کردئیے جائیں اور ملکی ضروریات پوری کئے بغیر پولٹری و ڈیری فیڈ میں استعمال ہونے والے اجناس کی ایکسپورٹ پر اور بطور ایندھن یا انڈسٹریز میں اس کے استعمال پر پابندی لگادی جائے تو یہ اقدام کرنے سے ہم خوراک میں خود کفیل ہونگے اور لائیواسٹاک بہت تیزی سے ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا اور ہم ویلیوایڈیڈ پروڈکٹس کی صورت میں ایکسپورٹ کے قابل ہونگے قیمتی زر مبادلہ حاصل ہوگا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر بھرپور معاشی طاقت کے طور پر نمایاں ہوگا۔ عین نوازش ہو گی۔ شاکر عمر گجر( صدر)ڈیری & کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن۔