تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی مسلمانوں کے رہنماؤں و جماعتوں کی جانب سے یہ بات کافی پہلے سے کہی جاتی رہی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریوں کے سلسلے کی بنیاد درست نہیں ہے۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں مسلمان دہشت گردی کے نام پر گرفتار ہیں۔ ان گرفتار شدگان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو قیاس پر مبنی گرفتار ہوئے ہیں یا ان کے خلاف شواہد و ثبوتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود نہ اِن باتوں پر آج تک کان دھرا گیا اور نہ ہی گرفتاری میں کسی قدر کمی آئی۔برخلاف اس کے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ٹھیک اسی طرح کی مثال ابھی حال میں بھی ہمارے سامنے آئی ہے، جہاں بابری مسجد دھماکہ کیس میں ملزم نصیر الدین احمد، جنہوں نے 23 سال جے پور جیل میں گزارے اور پھر انہیں بری کیا گیا، محمد عامر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ 14 سال جیل میں کاٹنے کے بعد ان کے اوپر لگے 19 میں سے 17 الزامات میں انہیں بے قصور پایا گیا۔ عامر کو دہلی، روہتک، پانی پت اور غازی آباد میں تقریبا 10 ماہ کے فرق سے الگ الگ جگہوں پر 20 کم نقصان پہنچانے والے بم پلانٹ کرنے کے الزام میں جیل میں رکھا گیا تھا۔
وہیں دوسری جانب مرکزی حکومت کے وزیر قانون سدانند گوڑا نے نریندر مودی حکومت کے دو سال کا دور اقتدار مکمل ہونے کا علی گڑھ میں ‘جشن ترقی’ مناتے ہوئے منعقد ہ تقریب میں کہا کہ ‘دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنا تشویشناک ہے۔ ہم اِس میں تبدیلی لانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ لاء کمیشن ان معاملات کی قانونی عمل میں تبدیلی لانے کے لئے رپورٹ تیار کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں رپورٹ تیار کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی ماہرین قانون بھی رپورٹ کی تیاری کے عمل میں مصروف ہیں’۔ گفتگو کا جو بھی مقصد رہا ہو اس کے باوجود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے عوام اور حکومت میں موجود افرادبھی حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔لیکن اگر معاملہ اقدامات کا ہو تو اس میں دیر کی جاتی ہے یا پھر اس طرح کے مسائل کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔گرچہ ان ملزمین کے حق میں اقدامات کرنے کی بات وزیر قانون کی جانب سے کہی جارہی ہے اس کے باوجود جو قدم بہت پہلے اٹھایا جانا تھا وہ ابھی تک صرف غوروفکر تک ہی محدود ہے۔
Charges of Terrorism
توجہ طلب بات یہ ہے کہ وزیر قانون نے یہ بات اُس وقت کہی جب کہ ان سے مسلم نوجوانوں پر دہشت گردی کے جھوٹے الزام لگائے جانے اور ان کی رہائی کے بعد اُن کے سامنے آنے والے مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس سے پہلے گزشتہ ہفتے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت نے دہشت گردی سے متعلق معاملات کو لے کر اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کیاہے۔ ساتھ ہی انہوں نے پولیس کو مشورہ دیا تھا کہ ان معا ملات کو ڈیل کرتے ہوئے صوابدید پر کام کیا جانا چاہئے۔ وزیر قانون ہوں یا وزیر داخلہ باتیں دونوں کی بہت اچھی ہیں،اور ہم اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جو پالیسیاں اب تک سامنے آتی رہی ہیں ان کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں اور کوئی بڑا مثبت قدم اٹھا سکیں گے۔ لیکن وقت سے پہلے کسی بات کی نفی بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے مان لیتے ہیں کہ جو کہا گیا ہے وہ جلد ہی پورا بھی کیا جائے گا۔
دوسری طرف یہ خبر بھی آج کل عام ہو رہی ہے کی بی جے پی کے صدر امت شاہ گزشتہ دنوں کسی حد درجہ پسماندہ گرجابند کے گھر کھانا کھا تے نظر آئے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ پوچھنے والا تو کوئی نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ جس طرح کانگریس کے راہل گاندھی دلتوں کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاتے ہیں ٹھیک اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کے امت شاہ بھی گرجابند کے گھر کھانا کھانے گئے تھے۔اور یہ گرجابند کے گھر کھانا کھاتے ہوئے فوٹو کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے مناظر تو عام طور پر اتر پردیش میں اسمبلی یا پارلیمنٹری انتخابات سے قبل نظر آتے رہے ہیں۔ مذاق اڑنے والوں نے راہل گاندھی کے دلت کے گھر کھا نا کھانے کا اس وقت بھی مذاق اڑایا تھا اور مذاق اڑانے والے اِس وقت بھی مذاق اڑارہے ہیں۔اس سب کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کو خود سے سوال کرنا چاہئے کہ وہ راہل گاندھی کے جس عمل کی نقالی میں مصروف ہیں ،وہ کیونکر ہیں اور جس عمل کو کبھی ڈرامہ کہا جاتا تھا،وہ ڈرامہ آج کیوں کھیلا جارہا ہے؟اوراسکا حاصل کیا ہے؟
سینئر صحافی روش کمار اپنے ایک مضمون ‘دوش سمرتھ کا اور سمرس بھوجن دلت کے گھر؟’ میں لکھتے ہیں کہ، ویسے بی جے پی کی جانب سے میڈیا کو بھیجے گئے دعوت نامہ میں گرجابند کو دلت بتایا گیا ہے جبکہ وہ حد درجہ پسماندہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ بنارس سے اُن کے ساتھی اجے سنگھ نے اُنہیں بتایا کہ بند اور راج بھر کئی سالوں سے اوبی سی میں شامل کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بند ماہی گیری سے منسلک ہوتے ہیں اور خوراک کے لحاظ سے گوشت خور ہوتے ہیں۔ پترِکہ ڈاٹ کا م کے ڈاکٹر اجے کرشن چترویدی نے جب ریاستی صدر موریا جی سے پوچھا تو انہوں نے بھی قبول کیا کہ گرجابند دلت نہیں ہے۔ ہمارے ساتھی اجے سنگھ نے بتایا کہ گرجابند پہلے اَپنا دَل میں تھے۔ پھر سماج وادی پارٹی سے منسلک ہو گئے اور اب بی جے پی سے منسلک ہیں لیکن بی جے پی کے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کے حامی ہیں۔
Dalit Atrocities
دوسری طرف یہ حقیقت بھی خوب عیاں ہے کہ ہندوستان میں دلتوں کو مندروں میں پوجا پاٹھ تک کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ ان کے مندر الگ ہوتے ہیں اور دوسری قوموں کے مندر الگ۔ اَمت شاہ اور راہل گاندھی سے یہ سوال بھی لازما ًپوچھنا چاہئے کہ دلتوں کو ملک کے تمام مندروں میں داخلے کی اجازت کیسے اور کب تک ملے گی ؟ساتھ ہی اس تعلق سے پارٹی اور فرد واحد کا نظریہ کیا ہے؟ کیوں کہ صحیح بات یہی ہے کہ اَمت شاہ ہوں یا راہل گاندھی، اُن کا یا اُن جیسے دوسرے لیڈران کا کسی دلت کے گھر کھانا کھا لینا کوئی خاص بات نہیں ہے، اس لیے کہ یہ سیاسی لوگ ہیں اور اِن کے ہر اعمال کے پیچھے سیاست ہی کارفرما ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے ملک میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے جبکہ کانگریس اور بی جے پی کے تمام لوگ ملک کے ہر گاؤں اور ہر گھر میں ایسی ہی مثال پیش کریں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور اپنے موقف کی وضاحت اور عملی کوشش نہیں کرتے ،پھر جو کام آج تک نہیں ہو سکا۔
مستقبل قریب میں اس کی امید کن بنیادوں پر کی جا سکتی ہے؟ یہ بات اس لئے بھی کہی جا رہی ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مندر کے پجاری اور ان کے ہمنوا ،دلتوں کے داخلہ پر روک لگاتے ہیں تو دوسری طرف دلتوں کو مندر میں داخل کرنے کے لیے ایک کوشش سامنے آتی ہے ، لیکن نہ صرف یہ کہ سماج کی جانب سے اس بائیکاٹ ہوتا ہے بلکہ مندر کے بجاری بھی عمل سے اختلاف رکھتے ہیں۔واقعہ اتراکھنڈ سے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ ترون وجے اور ان کی جانب سے کی گئی کوشش کا ہے،جس میں وہ چند دلتوں کو مندر میں عبادت کی غرض سے لے کر جاتے ہیں لیکن دہرادون کے پاس چراتا میں ان پر حملہ ہوتا ہے اورساتھ ہی جم کر پٹائی بھی ہوتی ہے۔وجہ صرف یہ تھی کہ ترون وجے دہرادون کے پوھر علاقے کے ایک قدیم شیو مندر میں دلتوں کے ایک گروپ کو داخل کرنے کے لئے ساتھ گئے تھے۔واقعہ کے نتیجہ میں اس فکر و عمل کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس کے قیام کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔
گفتگو کے پس منظر میں جس طرح آج ہندوستان کے دلت اور مسلمان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں ساتھ ہی معاشرہ جس طرح اُ ن کو اور اُن کے مسائل کو نظر انداز کرتا آیا ہے،واقعات کی روشنی میں اگر مسئلہ کے حل کی بات کی جائے تو دو مراحل سامنے آتے ہیں۔ ایک: حل کے لئے دلت اور مسلمانوں کو مشترک مسائل اور ان کے حل کے لیے متحد ہونا چاہئے۔ دو: ہمت و حوصلہ اور منظم و منصوبہ بند سعی و جہد کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہنا چاہئے۔ کیونکہ ظلم سے نجات اگر درکار ہے تو خاموشی کے ساتھ یہ حاصل ہونے والی نہیں ہے،اور ویسے بھی خاموشی کو عموماً موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے وہ قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے پر امن طریقہ کے ساتھ نظام عدل کے قیام کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی شناخت مٹ گئی یا مٹا دی گئی تو چہار جانب ظلم کا غلبہ ہوگا۔ ان حالات میں نہ ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے ، نہ ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں، نہ ملک آگے بڑھے گا اور نہ ہی دنیا میں ہماری کوئی حیثیت ہوگی۔
Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف ا قبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com