پاک فوج کے ترجمان نے حالیہ میڈیا کانفرنس میں واضح طور پر کہاہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر لڑی جائینگی یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس انداز میںپانی کی کمی کا سامنا ہے اسے فوری طور پورا کرنا بہت ضروری ہے ،پاکستان میں کالاباغ ڈیم پانی کو جمع کرکے اس سے بجلی بنانے اورزرعی زمینوں کو سیراب رکھنے کا ایک عظیم منصوبہ ہے جس کی تعمیر کو اس ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں نے متنازع بنا رکھاہے ،صوبہ پنجاب میں اس منصوبے کی مخالفین کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے،بلوچستان چونکہ سندھ سے پانی لیتا ہے اس لیے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود سندھ کی ہاںمیں ہاں ملاتاہے ، جبکہ اس منصوبے کی تعمیر میں صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ابھی تک پنجاب اسمبلی میں اس منصوبے کے خلاف کوئی آوازنہ اٹھی ہے۔
باقی صوبوں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف سخت بغض اور تحفظات سے بھرپور قراردادوں نے کالاباغ ڈیم کے اس عظیم منصوبے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کام کیاہواہے ، اس عظیم منصوبے میں مخالفین کا ایجنڈا سمجھ سے بالا تر ہے خیبر پختونخوا میں اس کے مخالفین میں اے این پی سرفہرست ہے جس کے سربراہ اسفند یارولی اور ان کے دیگر رہنمائوں نے کالا باغ ڈیم کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کررکھاہے اسفند یار ولی نے تو کالاباغ ڈیم کے معاملے دوٹوک الفاظ میں یہ کہاہے کہ “کالا باغ ڈیم کو بنانے کے معاملے میں ہائیکورٹ کا حکم آیا ہے خدا کی قسم اگراس مسئلے پر سپریم کورٹ کا حکم بھی آجائے تو کسی کے باپ کو بھی کالاباغ ڈیم نہیں بنانے دینگے “اس کے علاوہ سندھ میں رسول بخش پلیجوجیسے ڈیڈھ درجن قوم پرستوں کے رہنمائوں نے اس ایشو کو بلاوجہ اپنی عزت ونفس کا مسئلہ بنارکھاہے جس میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے بھی اپنی محدود سوچ سے سب کو پیچھے چھوڑ رکھاہے ،یہ طے ہے کہ اس منصوبے کی تعمیر میں آخری اجازت صوبہ سندھ سے لینی ہوگی جسے اگر سب سے بڑا مخالف کہا جائے تو درست ہوگا ،سندھ میں تو ویسے ہی پانی کے لیے ایک طویل عرصے سے غریب عوام لمبی لائنوں میں لگی ہوئی ہے اس پر آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بھرمیں آئندہ دس سالوں تک پانی مکمل طورپر ناپید ہوجائے گا۔
افسوس کہ یہ مخالفین اس منصوبے کے بڑے بڑے فوائد کو ایک طرف رکھ کر چند نقصانات کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے سوائے چند ایک قوم پرستوں کے عام آدمی کو تو اس منصوبے کی الف ب کا بھی نہیں معلوم ہے ، اور جن لوگوں کو تحفظات ہیںوہ لوگ اپنے جلسوں میں ایسے ہزاروں لوگوں کو لاکر کالا باغ ڈیم کے خلاف نعرے لگواتے ہیں جن کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کالاباغ ڈیم ہے کیا چیز جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ عوام میں سب سے پہلے اس منصوبے کے لیے شعور کو بیدارکرنا بہت ضروری ہے ، اس کے علاوہ جودریائے سندھ کا اربوں کھربوں گیلن پانی سمندر میں جاکر گرتا ہے اور ضائع ہوجاتاہے، یعنی ایک طرف تو ہم سمندر کا کھارا پانی میٹھا کرنے کے منصوبوں پر مرے مٹے جارہے ہیں تو دوسری جانب اربوں کھربوں گیلن میٹھا پانی کھارا کردیا جاتاہے ۔جبکہ اللہ کی طرف سے کالاباغ ڈیم کی حدود اس انداز میں بنی ہوئی ہے کہ اس پر اگر کام شروع کیا جائے تو اس میں رکاوٹوں کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے اگررکاوٹ ہے تو صرف زمین پر فساد کرنے والے انسانوں کی طرف سے ہے جواپنے پاکستانی بھائیوں کو چھوڑ کر بھارت کی خوشنودی کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔
جبکہ سندھ کے حکمران یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ سندھ میں ان کا زرعی نظام کس قدر تیزی سے سکڑتا چلا جارہاہے اندرون سندھ میں معیشت کا دارومدار پانی سے جڑا ہے جس کی کمی کو کالا باغ ڈیم ہی باآسانی پوراکرسکتاہے ،اس کے لیے اس کی تعمیر میں چھ یا سات سال کا عرصہ تو لگ سکتاہے مگر ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق کالاباغ ڈیم 20ارب یونٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے،جس سے سالانہ 300ارب روپے کی بچت ہوگی ماہرین کے مطابق اس منصوبے کی تعمیر سے 3600سے میگا واٹ بجلی پیدا کرکے عوام کو صرف اڈھائی روپے فی یونٹ میں بجلی دی جاسکے گی ۔ہمیشہ سے ہی کالاباغ ڈیم پر چند اعتراضات لگاکر اس مسئلے کو دبایا جاتارہاہے ان اعتراضات کو دور بھی کیا جاسکتاہے مگر مل بیٹھ کر کیوں کہ اس منصوبے میں نسلوں کی خوشحالیاں پوشیدہ ہیں،جس کے لیے میری ایک رائے یہ ہے کہ واپڈا کو چاہیے کہ وہ فوری طورپر سندھ کے پی کے اور پنجاب کے رہنمائوں کو ایک ٹیبل پر بٹھائے اور اس میںکالا باغ ڈیم کے ڈیزائن پر بات کی جائے،اس کے علاوہ سندھ کے قوم پرستوں نے گزشتہ کئی سالوں سے تھل کینال کے خلاف احتجاج کیا ہوا ہے ان لوگوں میں سندھ میں موجود تھل کینال کو پنجاب کا منصوبہ سمجھا جاتاہے وہ سمجھتے ہیںکہ کالاباغ ڈیم اور تھل کینال کے خلاف یہ تحریک سندھ کو بچانے کی تحریک ہے لہذا ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھل کینال کو اگر ختم کردیاجائے تو کالا باغ ڈیم پر بات ہوسکتی ہے لہذاا س پر بحث کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ کردار واپڈااداکرسکتاہے ،واپڈانے 1990میں 485سینئر اینجینئروں سمیت 1900سپروائزروں ،سروے اپڈیشن اہلکاروں کو اس منصوبے پر کام کرنے کی ہدایت جاری کی تھی جنھوں نے 1990سے لیکر 2001تک اس منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام کیامگر 2001میں یہ منصوبہ سیاستدانوں کی سیاست کی نظر ہوگیا۔ تاریخ بتائی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاملے کولیکر آج تک پاکستان نے اس معاہدے پرکبھی سنجیدگی نہیں دکھائی ہے۔
اس معاہدے میں ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دیے گئے تھے اس دن سے بھارت نے ستلج،بیاس اور دریائے راوی کو لیکر پاکستان کے ساتھ آبی جنگ کا ماحول برپا کیا ہواہے یعنی جب چاہاپانی روک لیا اور جب چاہاپانی چھوڑ دیااس کے علاوہ 1960میں بھارت کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے میں پاکستان نے آج تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایاہے جبکہ بھارت نے پانی کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے پاکستانی دریائوں پر ڈیموں کی بھرمارکررکھی ہے ۔بھارت یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ کالا باغ ڈیم اگر بن گیا تو جو اس نے جوپچاس پچپن سالوں سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی ہوئی ہے اس کے نقصانات کاازالہ یقینی ہوجائے گا ،اس لیے سندھ ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ساتھ اس ڈیم کی تعمیر میں ایک بڑی رکاوٹ بھارت خود بھی ہے۔
یقینا بھارت اپنی خفیہ ایجنسی را کی مدد سے ان کے مخالفین کی ضروریات کو پورا کرتاہے ، اب فیصلہ کرناعوام کا کام ہے کہ اس عظیم والشان منصوبے کے اصل دشمن چند سیاسی جماعتیں ہیں یا پھر خودبھارت؟ ہوسکتا ہے یہ دونوں ایک ہی ہو؟کیونکہ ایجنڈا تو ایک ہی ہیں نا۔یقینی طورپر بھارت اس منصوبے کی تعمیر میں براہ راست رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ہے مگر جو دشمن ملک پاکستان میں امن کو تباہ کرسکتاہے اس کے لیے کیامشکل ہے کہ وہ کالاباغ ڈیم منصوبے کو متنازع بنانے کے لیے چند نام نہاد رہنمائوں کو استعمال کرنے سے گریز کرتا ہو۔