سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس جو گزشتہ 4 سال سے عدالتی نظام کی چکی میں پس رہا ہے۔ حکومتی دہشت گردی کا شکار ہوکر ابدی نیند سونے والے 14 شہریوں کے لواحقین انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں ، مگر انصاف ۔ ۔ ۔ وہ پہلے کسی مظلوم کو ملا ہے جو اس سانحہ کے متاثرین کو ملے گا۔ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں 13 ستمبر 2018جمعرات کو استغاثہ کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل کی طرف سے سانحہ ماڈل کے گواہان میں سے محسن رسول کو تھپڑ مار دیاگیا۔ عدالت کے اندر معزز جج کے سامنے ملزمان کے وکیل کے ایسے ردعمل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ پاکستان کے قانون میں عدالت اور جج کے منصب کا ایک تقدس ہے۔ جس میں آپ جج کی اجازت کے بغیرکمرہ عدالت میں بات تک نہیں کر سکتے ۔ ایسے قانون کے ہوتے ہوئے بھی جج کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک وکیل کی طرف سے ایسا غیر اخلاقی عمل نہ صرف توہین عدالت ہے بلکہ قانون شکنی میں شمار ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کراچی کے عمران شاہ کی طرف سے ایک شہری کو تھپڑ مارنے پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے 30لاکھ کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ جس کو ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ عمران شاہ کو دی گئی سزا کے مطابق لاہور کی عدالت میں وکیل کے تھپڑ مارنے پر کتنے لاکھ کی سزا ہو گی یہ معزز جج ہی طے کریں گے۔ عمران شاہ نے تھپڑ پبلک میں ایک شہری کو مارا لیکن لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تھپڑپبلک کے سامنے نہیں بلکہ معزز جج کے سامنے مارا گیاہے۔ اور تھپڑ مارنے والا شخص کوئی اور نہیں قانون کی وردی پہننے والا ایک وکیل ملک ناظم اعوان ہے۔ ایک وکیل ایسی حرکت تب ہی کر ے گا جب اس کو علم ہو گا کہ وہ جس کی طرف سے کیس لڑ رہا ہے وہ کتنے پاور فل ہیں ۔ غنڈہ گردی کرنے والے جانتے ہوتے ہیں کہ یہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
قانون کا مذاق اڑانے والے کوئی کمال نہیں کرتے ۔ بلکہ قانون کو مذاق بنتے دیکھ کر صاحب اختیار کا خاموش رہنا کمال ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے اس ملک میں قانون کی بالادستی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ مگر یہ نعرے سیاسی جماعتوں کی طرح صرف میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار عدالت سے باہر عوام میں بھی متحرک نظر آتے ہیں لوگوں کیلئے صحت کی سہولتوں ، صاف پانی کی فراہمی وغیرہ کیلئے ایکشن لیتے نظر آتے ہیں لیکن عوام بطور چیف جسٹس ان سے صحت اور پانی سے زیادہ انصاف کی ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔
محترم چیف جسٹس نے اگر عدالتی نظام کی بہتری کیلئے توجہ دی ہوتی تو عوام انصاف کیلئے پر امید نظر آتی۔ جہاں قانون کے مطابق فیصلے ہونا ضروری ہیں وہاں ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ اگر عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہو گا تو اس طرح کے تھپڑ مظلوموں کا مقدر ہوں گے۔اور اگر دیکھا جائے تو یہ تھپڑ عدالت میں موجود اس گواہ محسن رسول کو نہیں بلکہ وہاں موجود معزز جج کے ساتھ عدالتی نظام اور منصف اعلی کے منصب پر فائزچیف جسٹس کو مارا گیا ہے ۔ اب یہ معزز جج صاحبان ہی فیصلہ کریں گے کہ عمران شاہ کی طرح ایک عام شہری کو تھپڑ مارنے کی قیمت 30لاکھ طے کرنے کی طرح پاکستان کی عدالت کو تھپڑ مارنے پر اس کی قیمت ہی طے کرتے ہوئے ڈیم فنڈ میں اضافہ کرنا ہے یا اس تھپڑ کو سنجیدہ لے کر ایسی قانون سازی کرنی ہے کہ آئندہ کسی کو ایسی غیر اخلاقی حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو۔