ڈیمز کی راہ میں بھارتی رکاوٹیں اور زرعی مشکلات

Dams

Dams

تحریر : راشد علی

حسرتیں دل کی مجسم نہیںہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے

راتوں رات اربوں کھربوں روپے ملکی خزانے میں بھرنے والے ان دنوں سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔وہ تواللہ بھلا کرے سعودی عرب اورچین کا جنہوں مالی مشکلات کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیاہے۔وزیراعظم عمران خان کے عزم وہمت کو سپورٹ کیا تاکہ پاکستان خوشحالی کا راستے پر گامزن رہے۔اوریہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہمیشہ سے ہی دنوں ممالک نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کو سپورٹ کیا ہے۔یہ محبت ہماراتاریخی ورثہ ہے۔۔پاکستانی اندرونی طور پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے ۔معاشی زبو ں حالی سے نجات کے لیے حکومت بھرپور کام کررہی ہے۔بھارت پاکستان کے اندرونی مسائل میں اضافہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔پاکستانی کی آبی مشکلات کی اصل جڑ بھارت ہے۔بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان ڈیمز تعمیر کرے ۔مگرپاکستان ڈیمز کی تعمیر کیے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رہ سکتا ۔پاکستان کوپانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔اس بحران کے اصل ذمہ دار حکمران ہیں جنہوں ڈنگ ٹپائو پالیسی اپناتے ہوئے اس منصوبے کو تعطل کا شکار کیا ۔سپریم کورٹ چندے کے ذریعے اس ڈیم کو بنانے جارہی ہے ۔موجودہ حکومت نے بھی اس اقدام کی تائید ونصرت کی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بحران کو سنجیدہ لیتے ہوئے اس پر تیزی سے کام کیاجانا چاہیے۔

یاد رہے کہ پانی کے بحران اصطلاح سے مراد دنیا کے پانی کے وسائل بمقابلہ انسانی مانگ ہے اس اصطلاح کا اطلاق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے کیا ہے دنیا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی خاص طور پر پینے کے قابل پانی کی قلت ہے اگرپانی دستیاب ہے تو وہ آلودہ ہے پاکستان کا 80فیصد پانی آلودہ ہے جبکہ مستقبل قریب میں آبی قلت پاکستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ثابت ہوگی یہ قلت اس قدر شدید ہوگی کے دو ایٹمی قوتیں پانی کے وسائل پر جنگ لڑ سکتی ہیں کیونکہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی مستقل خلاف ورزیاں کررہا ہے نئے آبی ذخائر کی تعمیر سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر آبی جنگ مسلط کرنے کے مترادف ہے بھارت آبی انتہاپسندی کی روش پر گامز ن ہے ملک بھر میں پانی کی قلت میں مسلسل اضافہ مستقبل میں خطرے کی گھنٹی بجاررہا ہے حکومتی بدانتظامی آبپاشی کے ناقص نظام چوری اور پانی کا وافر مقدار میں بے دریغ ضیاع ہے پاکستان دنیا کے 136ممالک میں 36ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے معیشت ،عوام اورریاست شدید دبائو میں ہیں آبی ماہرین ایک عرصے سے ارباب اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کراتے چلے آ رہے ہیں۔

اگر پانی کے مسئلے سے اسی طرح صرف نظر کیا جاتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ملکی سطح پر اس کا بہت بڑا بحران پیدا ہوجائے گاحکومت اوراپوزیشن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں مگر افسوس ذاتی مفادات ،ایک دوسرے پر لعن طعن ،دشنام طرازیاں ،الزام بازیوںکے حصار نے دونوں قوتوں کو اس سنجیدہ مسئلہ کو اپنی بنیادی ترجیح نہیں بنایا یہی وجہ ہے گزشتہ کئی عشروں سے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی بڑاڈیم نہیں بنایا گیا دوسری نااہلی ہر سال 30ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر کی نظر ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان 5ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برسوں میں پانی کی سالانہ مقدار میں 4360کیوبک میٹر کمی واقع ہوئی ہے 1951میں پاکستان میں ہر شخص کو سالانہ 5260کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو 2016میں کم ہوکر 900کیوبک میٹر تک محدود ہوگیا ہے اگر حکومت نے پانی کے مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا تو 2035تک فی کس پانی کی دستیابی کی شرح کم ہوکر 500کیوبک میٹر تک رہ جائے گی ملکی بڑھتی ہوئی مجموعی آبادی اور پانی کی قلت مستقبل میں خوفناک مسائل پیدا کرسکتی ہے پاکستانی زرعی ملک ہے 60فیصد سے زائد کھیتوں میں پانی بذریعہ ٹیوب ویل ،موٹر یا پمپوں کے زریعے دیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی سٹینڈرڈ کے مطابق کسی بھی ملک کی مجموعی پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کم ازکم 120دنوں کا پانی ذخیرہ ہوناچاہیے بدقسمتی سے ہمارے پاس صرف 30دنوں کا پانی ذخیرہ ہے اس کے برعکس ہندوستان کے پاس 220دنوں کا پانی ذخیرہ ہے پانی کی کمی کے سبب قابل کاشت رقبہ کاشت نہیں ہوپاتا جو رقبہ کاشت ہوتاہے اس کا بیشتر حصہ سیلاب یا خشک سالی کی نظر ہوجاتا ہے وڈیروں ،جاگیرداروں ،بیوروکریٹس اور تاجر سیاستدانوں کی نااہلی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ہرسال نالہ ڈیک، نالہ اک ،نالہ پھلکو،نالہ بسنترودیگر تالابوں کی وجہ سے اردگرد دوردراز تک فصلیں سیلاب کی نظر ہوجاتی ہیں مگر 7عشرے گزرنے کے باوجود کوئی درست اقدام نہیں کیا گیا البتہ زبانی جمع خرچ کے دعویے ہرسال ہوتے ہیں کسان غریب سے غریب تک ہوتا جارہا ہے۔

کسان شدید مشکلات کا شکارہے کسان کی کس کس مشکل کا ذکر کریں مظلوم کسان ،کسانوں کو رہنمائی اورسہولیات بہم پہنچانے والا محکمہ میٹھی نیند سورہا ہے ملازمین گپ شب چائے وائے پی کر گھر واپس لوٹ آتے ہیں میں نے درجنوں کسانوں سے پوچھا کبھی حکومتی ٹیم آپ کے مسائل سننے کے لیے آئی انہوں نے کہا اگر آتی توہمارے کھیت کھلیان یوں اجڑے اوربرباد نہ ہوتے مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ اک ایکڑ فصل پر کم وپیش اخراجات تقریباً 30000روپے آتے ہیں جبکہ منڈی میں اس خرچ کے اعتبار سے قیمت نہیں ملتی ذرا چاول کی فصل کو ہی دیکھ لیجئے سابق صدر پرویز مشرف دور میں چاول کی فصل کی خام قیمت 2500سے 3000کے درمیان تھی سابق پی پی پی اورمسلم لیگ نواز حکومت اورمقتدر حکومت کے دورِ اقتدار میں یہ 1000روپے سے 1800روپے کے درمیان برائے فروخت ہے اب مظلوم کسان کیا کرے اگر کسان کی ایک دن کی اجرت500روپے مقرر کی جائے تو چھ ماہ کی اجرت90ہزارروپے ہوگی لاگت اس کے علاوہ کسان کو نفع کی بجائے نقصان کا سامنا ہے اربات اقتدار شاہ خرچیوں میں مصروف ہیں کون ہے جو زراعت سے متعلقہ اداروں نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل NARC اور ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب سے اس سنگین مسئلے پر بات کرے ،کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے سات عشروںمیں کیا کام کیا حقائق گواہ ہیں زمین پانی کی کم یابی کی شکایت کررہی ہے کسان غربت کی چکی میں پس رہا ہے ، شعبہ زراعت زوال کا شکار ہے ،گنے کی پیداور ہویا کباس کی پیداور ،چاول کی پیداور ہو یا گندم کی پیداور ہر سیکٹر میں مایوسی ہی مایوسی ہے رہی سہی کمی بلیک مارکیٹنگ کرنے والیذخیرہ اندزی کے مرتکب غنڈے نکال دیتے ہیں۔

بیچارے کسان ذخیرہ اندوز مافیا سے سیزن میں دوائیاں اورکھاد ادھار خریدتے ہیں اور یہ زر کے حریص جعلسازی سے جعلی دوائیاں کسانوں کو فراہم کرتے ہیں جسسے کسانوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے ۔سابق حکومتی سفارتی ناکامیاں نمایاں تھیں موجودہ حکومت نے کسانوں کو بجلی کے فی یونٹ پر 50فیصد چھوٹ دی ہے جو خوش آئندہے۔ بھارت نے پاکستانی گندم کی سب سے بڑی مارکیٹ افغانستان پر قبضہ جماناچاہتا ہے۔بھار ت نے افغانستان کو گندم خریداری پر رضا مندکرلیا ہے۔ جبکہ افغانستان نے مزید گندم درآمد کرنے کے لئے بھارت کو گرین سگنل پہلے ہی مل چکا تھا۔ پاکستان افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنی کئی دہائی پرانی منڈیاں کھو رہا ہے، عالمی منڈی میں گندم کی قیمتیں 120 سے 180 ڈالر فی ٹن ہیں جبکہ پاکستانی گندم کا ریٹ 310 ڈالر فی ٹن ہے اس لئے پاکستان انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی گندم فروخت نہیں کر پا رہا۔سابق حکومت میں ساڑھے چار سال وزیرخارجہ موجود نہیں تھا ودیگر ذمہ داران بادشاہ سلامت کے تحفظ پر مامور تھے کیا ہی اچھا ہوتا یہ عوامی نمائندے عوامی خدمت کے لیے دھواں دھار پریس کانفرنسز ہوتیں مگر کیوں ؟ یہ مقدس نمائندے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں نہ کریں عوام ان کے ممنون ہیں،عوام کی اس بے حسی پر ایک شعر، ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن۔۔نومنتخب حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیمز کی تعمیر کے لیے کام کرنا چاہیے۔یہ قرض بھی اور فرض بھی۔

Rashid ali

Rashid ali

تحریر : راشد علی