تحریر : قاضی کاشف نیاز شاہد اور ماجد دو بڑے گہرے دوست تھے۔شاہد امیر تھا لیکن اس کے باوجود وہ ماجد کی ہرمشکل میں کام آتا۔اسے زندگی کے کسی موڑپرکوئی ضرورت پڑتی’شاہد اس کی فوراً بے لوث مالی اور ہرطرح کی مددکے لیے حاضر ہوجاتا۔ ماجد کا کسی سے جھگڑا ہوتاتوتب بھی شاہد ماجد کی ہی پوری پوری حمایت کرتا۔غرض ماجد کوکوئی مشکل بھی پیش آتی’شاہد سے جوکچھ بن سکتا’اس کے لیے حاضر کردیتا اورماجد کی دوستی میں کسی کی پروا نہ کرتا۔دوسری طرف ماجد کا تعلق غریب خاندان سے تھا لیکن جسمانی طورپریہ خاندان کچھ زیادہ طاقتور تھا۔دونوں کی دوستی بچپن سے تھی اوراب وہ بڑھاپے میں داخل ہو چکے تھے۔ شاہداپنی اعلیٰ صفات،شرافت، دریادلی اوراعلیٰ ظرفی کی وجہ سے اپنے گاؤں کاسردار بھی تھا۔ایک دفعہ شاہدکواس کے حاسد دشمنوں کی طرف سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔یہ دشمن کوئی غیرنہیں ‘اس کے اپنے ‘اس کے خاندان والے ہی تھے لیکن انہیں استعمال کرنے والے باہرکے لوگ تھے۔
شاہدکے خاندان کے کچھ قریبی لوگوں کی نظریں شاہدکے مال پرتھیں۔وہ سمجھتے تھے کہ شاہد کوراستے سے ہٹا دیں تو شاہدکی ساری دولت ان کے قبضے میںآجائے گی اور گاؤں کی سرداری بھی انہیں مل جائے گی۔ باہرکے لوگ بھی ان کے اس ناپاک مشن میں ان کے مدد گار بن گئے۔وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ شاہداورماجدکوآپس میں لڑا کر ہی وہ اپنے مقاصدحاصل کرسکتے ہیں۔ایک دن شاہد کو اطلاع ملی کہ اس کے دشمنوں نے اسے مارنے کاحتمی پروگرام بنالیاہے اور کسی بھی دن وہ اس کے گھر پردھاوا بول سکتے ہیں۔اس نے فوراً اپنے جگری دوست ماجد اوراس کے خاندان کے چند دوسرے افراد کواپنی حفاظت کے لیے فوراً پہنچنے کی گزارش کی۔ شاہد کوامیدتھی کہ جس طرح وہ ہرمشکل میں اپنے دوست کی کسی کی پرواہ کیے بغیر فوراً مدد کوپہنچتارہا ہے’اب ماجد بھی اس کی مشکل میں کسی کی پروانہ کرتے ہوئے فوراً مدد کوپہنچے گا۔ لیکن ماجد تک جوںہی اپنے دوست کا پیغام پہنچا’وہ عجیب مخمصے کاشکارہونے لگا۔ دراصل شاہد کے خاندان کے چند دشمنوں کے ساتھ ماجد کے کچھ کاروباری تعلقات تھے۔ پھر شاہد کے یہ دشمن اس کے ہمسائے بھی تھے۔وہ اب اپنا نفع نقصان سوچنے لگا کہ اگراس نے شاہد کی کھل کرمدد کی تو شاہد کے دشمن اس کے بھی دشمن بن جائیں گے۔ اس کے اپنے خاندان والوں کی جان کوبھی خطرہ ہوجائے گا۔
بس اس نے اپناساراآگاپیچھادیکھ کر اپنے تئیں بڑی عقلمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے شاہد کوجواب دیا کہ جگر میں تمہاری ہرطرح کی مددکے لیے حاضرہوں لیکن ابھی یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ ابھی فوری مدد سے تمہیں بھی نقصان ہوگااور مجھے بھی۔میں خود دیکھوں گاکہ تمہیں میری مدد کی کب ضرورت ہے اور کب تمہاری مدد کرناچاہیے۔ فی الحال میں غیرجانبدارہی بہترہوں اورتمہاری دشمن سے صلح کرانے کی کوشش کروں گا۔ماجدشاہدکو یقین دلانے لگاکہ میری دوستی پرشک نہ کرنا۔میں توتم پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن ابھی یہ وقت نہیں آیا۔ جونہی یہ وقت آئے گا،تم مجھے سب سے آگے پاؤگے لیکن شاہداپنے حالات کو بہترسمجھتا تھا۔وہ باربارماجد کومددکے لیے آواز دیتارہا۔لیکن ماجد کا آگے سے ایساہی جواب ہوتا۔آخرتنگ آکرشاہد نے اسے کہا کہ دیکھو!تمہارایہ جواب دوستی کے خلاف ہے۔ میں ہمیشہ تمہاری ہرمشکل میں کام آیا۔اب میں اپنی مشکل میں تمہیں بلارہاہوں توتم اِدھراُدھر کے بہانے کرنے لگے ہو۔ تم اگراب میری مدد نہیں کروگے تو کل کلاں مجھ سے بھی کوئی توقع نہ رکھنا۔پھرتم اپنے عمل کے خودذمہ دارہوگے۔
Mistake
اب بجائے یہ کہ ماجد اپنی غلطی کی اصلاح کرتا’ الٹاوہ جان چھڑانے کے لیے شاہدسے لڑنے لگا۔کہنے لگا کہ تم مجھے دھمکیاں لگارہے ہو’ تم اپنے آپ کو بڑاجاگیردار اور سرمایہ دار سمجھتے ہو۔میں تمہاری کسی دھمکی کوخاطرمیں نہیں لاتا۔میں غیرت مندہوں۔تمہاری دھمکی کے آگے جھکنے والانہیں۔اب شاہدنے اسے سمجھایا کہ میں نے تمہارے خلاف توقع جواب کی وجہ سے کچھ غصے میں تمہیں سخت بات ضرور کہی ہے لیکن اس کامقصد تم سے شکایت کرنا تھا’ کوئی دھمکی لگانا ہرگزنہ تھالیکن ماجد پرکوئی بات اثرنہ کررہی تھی۔ دشمنوں کوبھی ان دونوں کی پھوٹ کاعلم ہوگیا۔ چنانچہ وہ اطمینان سے شاہدکے خلاف اپنے منصوبے کو حتمی شکل دینے لگے۔ بالآخرانہوں نے پہلے شاہد کو اپنے راستے سے ہٹایااورپھرچندہی دنوں بعد انہوں نے ماجد کا بھی کام تمام کردیا ‘اس لیے کہ دشمن کادوست بھی دشمن ہوتاہے۔
قارئین کرام!اس کہانی میں شاہدغلطی پرتھا یا ماجد’ اس کاآپ خودآسانی سے فیصلہ کرسکتے ہیں ‘ویسے معمولی عقل رکھنے والابھی یہ بتاسکتاہے کہ ماجدغلطی پرتھا اوراسے شاہد کی ہرصورت مدد کرناچاہیے تھی جس طرح کہ شاہد اس کی ہرطرح کے حالات میں کسی کی پروا کیے بغیر مدد کرتاتھا۔آج کل یہی ملتی جلتی کہانی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نظرآرہی ہے۔ اللہ نہ کرے خاکم بدہن ‘اس دوستی کاانجام شاہداورماجد کی کہانی کے انجام کی طرح ہو لیکن قانون فطرت یہی ہے۔ چھوٹے لیول سے بڑے لیول تک اس قسم کے حالات میں ہوتاایسے ہی ہے۔ جب دودوستوں میں پھوٹ پڑتی ہے تونقصان دونوں کا ہی ہوتاہے۔ہم بچپن سے ایک اورکہانی بھی پڑھتے آئے ہیں۔یہ شیراورچوہے کی کہانی ہے۔سوچنے کی بات ہے’ہم چوہے تونہیں’شیر سے بھی شایدبڑھ کے ہیں۔کم ازکم ہمارے حکمران توشیرِپاکستان کہلاتے ہیں۔ان کاانتخابی نشان ہی شیرہے لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کاکردار اس چوہے سے بھی گیا گزرا ہوگیا جس نے مشکل پڑنے پراپنے محسن دوست پر پڑنے والاجال اپنے نوکیلے دانتوں سے کاٹ دیالیکن اپنے محسن کو مشکل سے نکال لیا۔
ہماری نام نہاد پارلیمنٹ سے منظورکی گئی ”متفقہ قرارداد” میں کہاگیاہے کہ ہم یمن جنگ میں غیرجانبدار رہیں گے البتہ سعودی سلامتی اورحرمین شریفین کو خطرہ ہوا تو ہم سب سے آگے ہوں گے۔ یہ” غیرجانبدار” کالفظ ڈالنے والے وہی ہیں جو کل تک پوراسال دھرنادے کر یہ شور مچاتے رہے کہ یہ پارلیمنٹ جعلی ہےاس میں کروڑوں جعلی ووٹوں سے ارکان اسمبلی منتخب ہوکرآگئے ہیں’ آج بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اکثریت گیدڑوں کی ہے لیکن اب ان کروڑوں جعلی ووٹوں سے بنی ہوئی پارلیمنٹ کی قرارداد کے بارے میں کہاجارہاہے کہ یہ ایک ”مقدس ایوان” کی ”مقدس” اور”متفقہ” قراردادہے اور اگر اس پارلیمنٹ کی قرارداد سے انحراف کیا گیا اورپاکستان کے واحدمخلص محسن دوست کی مدد کی کوشش کی گئی اور فوج بھیجی گئی توپھر ”دمادم مست قلندر” ہوگا اورپاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتناہوں گے۔”
Pakistan
ویسے اس پارٹی کے سادہ لوح اورنوآموز ونابالغ بوڑھے قائدکی نابالغانہ ضدکے نتیجے میں پاکستان کی ترقی پورا سال ان کے دھرنے کے سپیڈبریکرکی زد میں رہی۔ ان کی نابالغانہ اورعاقبت نااندیشانہ سوچ کے نتیجے میں پاکستان سے پہلے ایک مخلص دوست چین ناراض ہوا۔ ان کے دھرنے کی وجہ سے چین کے صدر کادورہ منسوخ ہوا جو ان کی اس ”مہربانی” کی بدولت طویل عرصے تک منسوخ ہی ہوتا رہا جبکہ ہمارادشمن بھارت ہماری پھوٹ سے فائدہ اٹھا کرچین کے صدر کواپنے ملک بلاکراربوں ڈالر کے معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ہم چین کے خانِ خاقان کاطویل عرصے تک منہ تکتے رہ گئے۔البتہ ایسی ”شاندار” تبدیلی لانے والے خانِ خانان کامنہ ہمیں روزانہ دیکھنا پڑتاہے جو اپنی ہرضدکوایک ”شاندار تبدیلی” کہتے نہیں تھکتے۔اگرچہ وہ اپنی اس ضدکی دھول دھرنا ختم کرکے خود چاٹنے پرمجبورہوئے ہیں اوراب وہ یہ دھول پوری قوم کو چٹانا چاہتے ہیں۔پاکستان کے دنیامیں دو ہی مخلص دوست ہیں۔ایک چین اور دوسراسعودی عرب۔ پہلے چین کو ناراض کیا’بڑی مشکل سے اسے دوبارہ منایا تواب وہ ہمارے اکلوتے واحد مخلص ترین اور بے لوث دوست سعودی عرب کو بھی ناراض کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے سادہ لوح دوست کہہ رہے ہیں کہ جب سعودیہ کی سلامتی اورحرمین شریفین کو واقعی خطرہ ہوگا تو ہم سعودیہ کی مدد میں سب سے آگے ہوں گے۔ حیرانی ہے کہ باغی حوثیوں کاسینئررہنما عبدالحکیم الخیوانی اعلانیہ دھمکی دے چکاہے کہ ہم حرمین شریفین پربھی حملہ کر سکتے ہیں’ کیا اس کے بعدبھی حرمین شریفین کوخطرہ لاحق نہیں ہوا؟ کیا یہ خطرہ ہمارے اس خانِ خانان کواس وقت نظر آئے گا جب یہ حرمین کے باغی اورگستاخ حرمین شریفین کی معاذاللہ دیواریں توڑرہے ہوں گے۔کہتے ہیں کہ اگرکسی کولڑائی کے بعد دشمن کومُکَّامارنایادآئے توپھراُسے وہ مُکَّا اپنے منہ پر ہی مارلیناچاہیے۔ غالب نے کیاخوب کہاہے: کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ہماری خانِ خانان سے گزارش ہے کہ آپ اپنی عظیم فہم وفراست اپنی پارٹی تک ہی محدود رکھیں توبہتر ہے’ پوری قوم اورپوری ملت اسلامیہ کی سلامتی کو اپنی ”عظیم فہم و فراست” کاتختۂ مشق نہ بنائیں۔وہ نہیں جانتے کہ یہ حوثی کون ہیں…اوران کے سینئر لیڈر عبدالحکیم الخیوانی نے جودھمکی دی ‘وہ محض ایک خالی خولی دھمکی تھی یاحقیقی۔انہیں اگرحوثیوں کی تاریخ کا علم ہوجائے توانہیں شایدتب یقین آئے کہ یہ حوثی حرمین شریفین کو معاذاللہ تاراج کرنے کی جو دھمکی دے رہے ہیں’وہ اس میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔آئیے ہم آپ کو تاریخ اسلام کے سب سے نامور مؤرخ ابن خلدون کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہ حوثی کس قدر بھیانک تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔ حرمین پرحملے کرنا…حوثیوں کی پرانی تاریخ عام طورپرکہاجاتاہے کہ حوثیوں کاتعلق معروف شیعہ فرقہ اثناعشریہ سے ہے لیکن ایسانہیں۔جولوگ اسے شیعہ سنی یاایران اورسعودی عرب کی جنگ بتاتے ہیں’ انہیں علم ہوناچاہیے کہ ایران کے شیعہ کا تعلق اثناعشری یعنی بارہ امام ماننے والے فرقے سے ہے جبکہ حوثیوں کازیادہ اسماعیلیوں سے تعلق ہے جنہیں ابن خلدون نے قرامطہ’ملاحدہ اور باطنیہ کانام بھی دیاہے۔
Yemen Rebels
ابن خلدون لکھتے ہیں کہ انہیں ملاحدہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے عقائدملحدوں (بے دینوں) اور زندیقوں سے ملتے جلتے ہیں۔ان کے مذہب کے مطابق نبیذحرام ہے’ شراب حلال ہے۔ جنابت کے لیے غسل کی ضرورت نہیں اورسال میں صرف دودن کاروزہ ہے اور نمازیں بھی صرف دو ہیں جبکہ ان کی ادائیگی کاطریقہ بھی ان کے ہاں عجیب و غریب ہے۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ 287ھ میں ابوطاہر قرامطی (یعنی اس فرقے کے لیڈر) نے317ھ میں مکہ معظمہ پرچڑھائی کرکے بے شمار حاجیوں کو قتل کیا۔ اہل مکہ کے گھربار’مال واسباب کولوٹ لیا۔مسجدالحرام اور چاہ زمزم شہید ہونے والے حاجیوں سے بھرگئے۔ اس کے بعد بیت اللہ کے دروازے کوتوڑا حجراسود کو اکھاڑکر اپنے ساتھ لے گیا۔اس کاایک بدبخت ساتھی بیت اللہ کی چھت پر چڑھ گیااورمیزاب رحمت کو اکھاڑپھینکا۔اللہ کاغضب اس پروہیں نازل ہوااوروہ گرکرمرگیا۔
ابوطاہر بدبخت نے حجراسود کی بھی بے حرمتی کی۔ اس پتھر کوتوڑڈالا۔اس کے عوض اسے بے پناہ مال ودولت کی پیشکش کی گئی لیکن یہ ظالم نہ مانا۔بالآخرعبیداللہ المہدی اور منصوراسماعیل کی طرف سے جنگ کی دھمکی کے بعد واپس کیا گیا۔ آج حجراسود کے گرد جوچاندی کا حلقہ نظر آتا ہے تودراصل حجراسود کے ان ٹکڑوں کو ایک لکڑی میں سوراخ کرکے رکھاگیاہے اوراس کے اوپر چاندی کاحلقہ دیاگیاہے جوصاف نظرآتاہے۔انہی قرامطیوں میں حسن بن صباح سے کون واقف نہیں۔اس نے جنت ارضی بنائی۔اس کے پیروکاروں کو فدائین اور حشیشین کہاجاتاتھا۔ فدائین اس لیے کہ وہ ان کے حکم پراپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے اور حشیشین اس لیے کہ جن لوگوں کواپنی جنت ارضی میں رکھتاتھا’انہیں نشے کاعادی بناتاتھا’انہیں محل’قیمتی ملبوسات’ ہرقسم کے فواکہات’ماکولات ومشروبات اورحوروغلمان کی سہولت کے ساتھ ساتھ چاقوزنی کی تربیت دیتاتھااور غیر محسوس طریقے سے ان کوکھانے میں بھنگ کے نشے کا عادی بنادیتاتھا’پھراس ”جنتی نوجوان ”کے ذمے کوئی غلطی لگا کر اسے جنت بدر کردیتا تھا اور واپس جنت میں داخلے کے لیے کسی بہت بڑے عالم دین یاملت اسلامیہ کے اہم رہنما کو قتل کرنے کی شرط عاید کرتا تھا۔یوں اس ملحدنے بے پناہ جیدعلماء کرام اورشیوخ کو شہید کیا۔
Khana Kaba
یہ ہے حوثیوں’ قرامطیوں کی بھیانک تاریخ۔ غرض جس فرقہ نے پورے اسلام کوبگاڑدیا’ ملحدوں سے بڑھ کر بدترین عقائد اختیارکیے اور خانہ کعبہ پر چڑھائی کرکے حجراسود تک توڑکے لے گئے’ان سے دورِ حاضر میں بھی کیا توقع کی جاسکتی ہے جبکہ اب ان کاسینئر لیڈر عبدالکریم الخیوانی حرمین شریفین پراعلانیہ حملے کی دھمکی تک دے چکا ہے ۔کئی ویب سائٹز پر اس کابیان موجودہے۔ اس کے الفاظ یہ تھے: We will circle the Ka’bah next Hajj in Makkah as conquerors’ ”ہم بطورِ فاتح اگلے حج پرکعبہ کامکہ میں گھیراؤ کریں گے” خانہ کعبہ کے خلاف ناپاک عزائم رکھنے والا یہ بدبخت لیڈرسعودی ابابیلوں یعنی فضائی حملوں کی ابتداء میں ہی ابرہہ کی طرح الحمدللہ ماراگیا تاہم اس بیان سے حوثیوں کے عزائم آشکار ہوگئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ حوثیوں کے اس قدر گھناؤنے عزائم کے باوجودہم سوچتے ہیں کہ ابھی خطرہ نہیں توپھراور کب خطرہ ہوتاہے …کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔