ڈنمارک (اصل میڈیا ڈیسک) ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے امریکا کے ساتھ ایسے روابط سامنے آئے ہیں، جس میں اس نے یورپی رہنماؤں کی جاسوسی میں مدد کی تھی۔ اس تناظر میں جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر نے ڈنمارک سے وضاحت طلب کر لی ہے۔
ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے ساتھ رابطوں اور تعاون کا انکشاف یورپی نیوز اور نشریاتی اداروں کے ایک گروپ نے اپنی ایک تفتیشی رپورٹ میں کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ڈینش خفیہ ایجنسی کی مدد سے، جن نمایاں یورپی لیڈروں کی جاسوسی کی گئی، ان میں جرمن چانسلر، فرانسیسی صدر اور چند دوسرے ممالک کے لیڈران شامل ہیں۔
یہ جاسوسی سن 2012 سے لے کر سن 2014 کے درمیان کی گئی۔ اس وقت موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن سابق امریکی صدر باراک اوباما کے نائب صدر تھے۔
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے اس رپورٹ کے عام ہونے کے بعد ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی کے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے یہ مذمتی بیان جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد دیا۔ ماکروں نے اس اقدام کو اتحادیوں اور یورپی پارٹنرز کے حوالے سے ناقابلِ قبول قرار دیا۔ انہوں نے یورپ اور امریکا کے تعلقات کو خوشگوار بنیادوں پر استوار ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ ماکروں نے واضح کیا کہ ان تعلقات میں شبہات کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
فرانسیسی صدر کے بیان کے ساتھ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں باعتماد تعلق کا ہونا اہم ہے۔ اس تناظر میں جرمن چانسلر کا لہجہ قدرے نرم خیال سمجھا جا رہا ہے۔ جرمن اور فرانسیسی رہنماؤں کی میٹنگ میں اس پر بھی اتفاق کیا گیا کہ واشنگٹن اور کوپن ہیگن کی حکومتوں سے اس معاملے پر مناسب جواب لیا جانا ضروری ہے۔
جس عرصے میں ڈنمارک کی خفیہ ایجنسی نے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے لیے جاسوسی کی تھی، اس وقت موجودہ خاتون وزیر دفاع ٹرینے برامسن اس منصب پر فائز نہیں تھیں۔ انہوں نے اس میڈیا رپورٹ کے حوالے سے کوئی تصدیقی بیان نہیں دیا، البتہ انہوں نے اس جاسوسی کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول ضرور قرار دیا ہے۔
ڈنمارک کے حکومتی نگرانی میں چلنے والے نشریاتی ادارے ڈی آر کے مطابق ٹرینے برامسن کو سن 2020 کے آخری مہینوں میں ملکی خفیہ ادارے کی کارروائی سے آگہی ہوئی تھی۔ ان معلومات کے ملنے کے بعد وزیر دفاع نے ڈینش خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ عہدے داروں کو فارغ کر دیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت ان اہلکاروں کو ملازمتوں سے نکالے جانے کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی تھی۔
ڈنمارک جس علاقے میں واقع ہے، اسے اسکینڈے نیویا کہتے ہیں۔ اسکنڈے نیویا خطے کے دیگر ممالک سویڈن اور ناروے نے بھی اپنے ہمسایہ ملک ڈنمارک سے اس جاسوسی کا جواب طلب کیا ہے جبکہ ناروے کی خاتون وزیر اعظم ایرنا سولبرگ نے اسے نامناسب اور ناقابل قبول قرار دیا۔
سویڈن کے وزیر دفاع پیٹر ہلٹکوسٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کے حوالے سے اپنی ڈینش ہم منصب کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان سے پوچھا ہے آیا ڈینش خفیہ ایجنسی سویڈن کے سیاستدانوں کی جاسوسی میں بھی ملوث رہی ہے۔