افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
شاہ بانو میر ادب اکیڈمی کے زیر اہتمام میگزین (درمکنون) کی رونمائی پاکستانی ریسٹورنٹ ویلیر لو بیل میں شاندار طریقے سے ھوئی۔۔ جسمیں مہمانان گرامی سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب اور ساتھ سفارت خانہ کے ہیڈ آف چانسلری جناب عمار امین اور خاص اس تقریب کیلیۓ کینیڈا سے آنے والے اردو ادب کے مایہ ناز۔ مصنف۔ محقق ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے رونق بخشی۔ ھماری خوش نصیبی کہ شاہ بانو ادب اکيڈمی کو يہ اعزاز حاصل ھوا کہ آج دونوں اھم شخصیات کی موجودگی نے اس بزم ادب کو چار چاند لگا ديۓ جو ادب اکیڈمی کیلیۓ باعث فخر ھے جسے ہمیشہ یاد رکھا جاۓ گا۔۔ اس تقریب رونمائی کی خاص خصوصیت کہ تمام خواتین گھریلو مصروفیات ترک کرکے اس ادبی محفل کا حصہ بنیں جو کہ شاہ بانو ادب اکیڈمی کیلیۓ کسی اعزاز سے کم نہیں۔
“”” درمکنون””” کی ایڈیٹر وقار النساء صاحبہ نے پروگرام کی میزبانی کے فرائض سرانجام دئے اللہ تعالی کے بابرکت نام سے پروگرام کا آغاز کیا ، قرآن پاک کی تلاوت اور نعت پڑھی گئی۔ اس کے بعد ايمن نے اپنی خوبصورت آواز میں ملی نغمہ پیش کیا۔۔۔۔
اکیڈمی کی بانی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے اپنی ٹیم کا مفصل تعارف پیش کیا اور آنے والے مہمانان گرامی سے دوران گفتگو کہا کہ کسی ادارے کی افادیت اہمیت اور کارکردگی کو تسلیم کیا جاتا ہے تو ہی اُس ادارے پر اللہ کا یہ احسان ہوتا کہ ایسے بڑے لوگ حوصلہ افزائی کیلئے تشریف لاتے ہیں. آج اکیڈمی کا مقصد مکمل ہوا اور اب خواتین مزید تندہی سے تحریری قافلے کو رواں دواں رکھیں گی۔
Pakistan Ambassador Ghalib Iqbal with Shahbano Mir
درمکنون کی تمام ارکان نے باری باری اپنے خیالات کا اظہار کرتے ھوۓ ملکی و معاشی۔ ثقافتی۔ تہذیب و تمدن پہ جامع و مفصل روشنی ڈالی۔۔۔ سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاجب ناسازی طبیعت کے باوجود اس ادبی محفل کی زینت بنے اور خوش اسلوبی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ھوۓ پاکستانی کمیونٹی کو اپنے فرائض کی ادائیگی کیلیۓ کہا کہ بچوں کو دینی و دنیاوی ماحول کیساتھ والدين کو اپنے فرائض سے کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیۓ۔۔۔۔
ملک کی خدمت ميں جو کلیدی کردار آپ نے کيا پاکستانی کمیونٹی بھی ہمیشہ آپ کی خدمات کو یاد رکھے گی۔۔ ۔۔ اردو ادب کے روح رواں ڈاکٹر سید تقی عابدی صاحب جنکی تقریر کا عنوان ہی اردو رسم ا لخط ھے ان کی بہترين سوچ کی عکاسی ہی یہ الفاظ ہيں ۔۔ ۔۔ میں صحت کا طبیب ھوں۔ اور ادب کا مریض ھوں۔۔ آپ کی بے شمار کتب منظر عام پہ آچکی ہيں اردو رسم ا لخط کو نئی نسل میں منتقل کرنا انھيں قومی و مادری زبان سے روشناس کروانا ہی ان کا مقصد حیات ھے۔
انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ھوۓ کہا کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ھے ايک پڑھی لکھی اور باشعور ماں ايک پورے کنبے کو باشعور کرتی ھے ۔۔ انھوں نے مذید کہا کہ اگر کوئي خاتون رائيٹر ھو یا مصنفہ ۔ تو دیکھیں اگر اس کے مخالفین کی تعداد بڑھنے لگی ھے تو سمجھ لیں وہ حق پہ ھے اور یہی اسکی کامیابی کی دلیل ھے۔۔۔
نوجوان نسل کیلیۓ ان کا پیغام ،، کہ اردو زبان کی بقاء اور ارتقاء کیلیۓ انھیں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں برتنی چاہیۓ ،يہ ايک امانت ھے جسے انھوں نے نسلوں تک پہنچانا ھے اور اپنی تہذیب کو ايک فرض سمجھ کے نبھانا ھے ،،بہترين ماحول عمدہ زبان و بیان سے يہ ادبی محفل بحيریت انجام پائی ،، اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ھماری نسلوں میں ملک و قوم کی خدمت اور اردو رسم ا لخط کے ساتھ محبت وفا شعاری اور شعور و آگہی پیدا ھو، آمین۔