کراچی (اسٹاف رپورٹر) حلقہ علویہ القادریہ کے زیر اہتمام درگاہ شاہ جیلانی گلشن اقبال میں حضرت امام حسین و جملہ شہدائے کربلا کی یاد میں سالانہ محفل ختم شریف کا انعقاد کیا گیا جس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بصد خلوص و عقیدت شرکت کی، محفل کا آغاز حسب روایت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر سے ہوا۔
اس متبرک محفل کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے خلفاء حضرات سید اظہر علی علوی القادری اور عبد الحفیظ علوی القادری نے فرمایا ۔ مومن کو نور ایمان سے عقل و فراست اور مشاہدہ سے علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ بغیر مشاہدہ کا علم قصور اور بغیر ایمان کے عقل فتور کا سبب اور بنیاد ہوتی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورة انفال کی دوسری آےةمیں تین خصوصیات و صفات یعنی خوف خدا (تقویٰ) توکل(اللہ پر بھروسہ) اور تقویت ایمان کو ”ذکر الہٰی ”سے ایسا وابستہ کردیا ہے کہ ذکر الہٰی شجر طیبہ ہے اور تینوں اوصاف حمید ہ اس کاثمر نوری ہیں اور جب تک یہ تینوں خصوصیات کسی میں موجود نہ ہوں وہ اللہ رب العزت کے نزدیک مومن نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سورة الانفال کی تیسری آےة میں فیصلہ صادر فرمادیا کہ یہی لوگ نماز قائم کرتے ہیں اور جونعمتیں ان کے رب نے انہیں عطا فرمائی ہیں وہ اس کی خوشنودی کیلئے اس کی راہ میںخرچ کرتے ہیں ان دونوں آیات کا عملی مشاہدہ ان کے نزدل کے تقریباً ساٹھ سال بعد کربلا معلیٰ میں امام عالی مقام سیدنا مولا حسین نے اپنے کردار سے مخلوق کے سامنے رہتی دنیا تک کیلئے پیش فرما دیا چونکہ وہ اس باعث تخلیق کائنات سے وجود میں آئے تھے جس کا وجود فیضان ذکر الہٰی کا منبع و خزانہ تھا اور اس عظیم ہستی کے فرزند تھے جنہوں نے غار حرا میں ذکر الہٰی کے فیضان و تعلیم براہ راست اس منبع فیض سے حاصل فرمائے تھے۔
اس لئے ذکر الہٰی کے شجر طیبہ کے وہ ثمر یعنی تقویٰ ،توکل اور ایمان کی مضبوطی بہ تمام وکمال ان میں موجود تھے ۔کربلا کے واقعات قدم قدم پر اللہ رب العزت کے اس ارشاد کی شہادت پیش کررہے ہیں اور آج بھی اہل مشاہدہ ہی کے نہیں بلکہ مادی طور پر تاریخ انسانیت کا مطالعہ کرنے والوں کے دلوں میں بھی اس حقیقت کی تائید پیدا کررہے ہیں کہ ”پس تم میرا ذکر کرو اور میں تمہارا ذکر (مخلوق کی زبانوں پر جاری کرکے ) کروں گا ” یہ ارشاد باری تعالیٰ امام عالی مقام سیدنا حضرت امام حسین کی ذات سے زیادہ شاید ہی کسی اور ذات پر صادق آتا ہو ۔ذکر حسین در حقیقت اس ذکر الہٰی کا نتیجہ ہے جو حسین کو ان کے نانا جان اور بابا جان سے ورثہ میں ملا تھا اور ذکر الہٰی کو انہوں نے آخر دم تک سینہ سے لگائے اور رگ جاں بنائے رکھا۔
اس ذکر الہٰی نے انہیں میدان کربلا میں ایسی نماز قائم کرنے کی طاقت عطا کی کہ جس سے تمام نماز قائم کرنے والے قیامت تک فیضان حاصل کرکے اس زمرہ میں شامل ہوتے رہیں گے جن کیلئے سورةالانفال کی تیسری آےة میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”یہی حضرات نماز قائم کرتے ہیں ” ویسے تو نمازی نماز پڑھتے ہیں لیکن ”قائم” وہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب سے زیادہ قیمتی دولت اور نعمت یعنی دولت ایمان اللہ کی خوشنودی کیلئے عطا کرتے اور تقسیم فرماتے ہیں یہی سچے مومن ہیں جن کا نور ایمان عقل و فراست کا سرچشمہ اور جن کا مشاہدہ علم کا خزانہ ہے کیونکہ بغیر مشاہدہ کے علم قصور اور بغیر ایمان کے عقل فتور کا سبب ہوا کرتی ہے جیسا کہ کربلا کے ظالم گروہ یزید کا علم جس نے انہیں خطا اور گناہ کے سوا کچھ نہیں دیا اور اس گروہ کی وہ عقل جو فراست مومن سے خالی تھی فتور اور فتنہ کا سبب بن کر ان کی گمراہی اور ضلالت کا باعث ہوئی۔
کربلا اب بھی اس حقیقت پر شاہد ہے ۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ خلفاء حضرات کے ایمان افروز اور فکر انگیز خطاب کے بعد معروف نعت خواں حضرات فیصل حسن نقشبندی اور محمد احمد نے بارگاہ رسالت و ولایت میں گل ہائے عقیدت پیش کئے جس کے بعد شرکاء نے بارگاہ رسالت میں صلوةٰ و سلام کا نذرانہ پیش کیا بعد ازاں اجتماعی دعا کی گئی اور شرکائے محفل نے خلفاء حضرات کے ہمراہ درگاہ حضرت سید ظہیر الحسن جیلانی چاند پوری پر حاضری دی اس موقع پر مزار اقدس پر فاتحہ خوانی اور گل پاشی کی گئی بعد از اختتام محفل حاضرین کی نیاز حلیم سے تواضع کی گئی۔