تحریر: مزمل احمد فیروزی شہر قائد میں صحافت کرتے ہوئے اکثر پولیس کو جانبدار دیکھا مگر جب کبھی بھی صحافی کی بات آتی تو ہماری سندھ پولیس ہمیشہ نرمی دکھاجاتی مگراس کے برعکس پنچاب پولیس کی پولیس گردی اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہے مگر کل تو انتہا ہی ہو گئی ریاست کے چوتھے سکون صحافت سے وابستہ افراد کو بھی اس پولیس گردی کا سامنا ہے جب ہمارے قلم کار دوست نسیم الحق زاہدی جو کہ لاہور کے علاقے مزنگ میں کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں اس محلے کے چند اوباش لڑکے ہر شام محلے میں اس کے گھر کے سامنے آکر کھڑے ہوجاتے ہیںاور آتی جاتی خواتین پر آوازیں کسنااونچی آواز میں گانے گانا سیٹیاں مارنا موٹرسائیکل کے سیلنسرنکال کر ریسیں لگانا ان کا وطیرہ ہے اور بالخصوص رات 9 سے1تک دوسروں علاقوں سے بھی آوارہ شرابی چرسی اوباش لڑکے ٹولیوں کی صورت میں آکر ان سے مل جاتے ہیںاور موبائل پر اونچی آواز میں فحش فلمیں اور گانے لگا کر نازیبا آوازیں نکلانا ان کا وطیر ہے۔
ایک بارہمارے قلمکاردوست نے ان سے ریکوسٹ کی کہ یہاں شریف لوگ رہتے ہیں اور اس طرح کی حرکات کا بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا تو شراب کے نشے میں دھت ان اوباش لڑکوں نے خوب گندی گندی گالیا ںنکالی اور قتل اغواء جیسی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی زاہدی کے بارہا سمجھا نا پر یہ اوباش لڑکے نہ مانے توہمارے قلم کار دوست نے پولیس سے رابطہ کیا اورتنگ آخر پولیس مددگار15پرکال کی مگرگھر سے پولیس اسٹیشن پانچ منٹ کے فاصلے پر ہونے کے باوجود پو لیس ایک گھنٹے بعد آئی اور اوباش لڑکوں سے بازپرس کرنے کے بجائے انہی سے حال احوال میں لگ گئے بقول زاہدی کے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ان بااثر غنڈوں کا تعلق کسی ا علیٰ پو لیس افسر سے تھا اس لیے ان پولیس والوں نے زاہدی کو اپنے ساتھ تھانے لے گئے اور بولے کیا آپ نے پورے علاقے کو سدھارنے کا ٹھیکہ لیاہوا ہے اور بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کے خلاف کہا ہے کہ آپ آتے جاتے ان لڑکوں کو دھمکیاں دیتے ہو کہ میں صحافی ہو تم لوگوں کو بند کروادونگا وہاں تو وہی ہوا کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور ان کو لینے کے دینے پڑ گئے اورالٹا مدعی ہونے کے باوجود ہمارے دوست کو ذلت اٹھانی پڑی۔
Journalism
حسب روایت رشوت کی مانگ کرنے لگے تو ہمارے دوست صحافت کی بانگ دیتے ہوئے سب کو برا بھلا کہتے تھانے سے واپس گھر آگئے اور گھر والوں کو بولا کہ ہمارے نظام کا کچھ نہیں ہونے والا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ہے اور پھر وہ پنی ہائی بلڈپریشر کی دوائی کھا کر سوگیا اورپھر آدھی رات کو وہی لوگ پھر موٹر سائیکل کو ریسیں دیتے رہے اور کچھ دیر بعد 50’40 کے قریب غنڈے اسلحے سے لیس گھر کر دروازے پر آگئے اور دروازے کولاتیں مارتے اور دروازہ کھل گیا تو اندر گھس آئے اور ان کی بیوی اور بہن پر پسٹل تان کر مارنے کی دھمکی دی اور کہنے لگے کہ پولیس ہماری غلام ہیں اور اپنا تعارف شیخ تنویر ڈائر یکٹر انٹی کرپشن کہہ کر کرایااور دھکمیاں دیتے ہوئے دوبارہ گلی میں جا کر کھڑے ہوگئے تو ہمارے دوست نے دوبارہ 15پر کال کی تو ایک گھنٹے بعد ایک عام لباس میں بندہ آیا جو خود کر پولیس والا کہہ رہا تھااور ملزمان کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا جبکہ 15 کو بتایا گیا تھا کہ ملزمان اسلحے سے لیس ہیں اور اس کے گھر میں گھس آئے ہیںکچھ دیر بعد ایک باورد ی پولیس والا آیا اور بولا زاہدی صاحب آرام سے زندگی گزاریں ان لوگوں کے معاملات میں نہ پڑے ورنہ یہاں رہنا مشکل ہوجائے گا۔
کیا یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں کہ متوسط علاقوں میں رہنے والوں کو تحفظ فراہم کرے اورکیا اہل قلم کی بے توقیری پنچاب پولیس کافرض منصبی ہے ؟کیا زبردستی گھر میں پسٹل لیکر گھس جانا دہشت گردی نہیں؟چاردیواری کی تقدس کو پامال کرنا ان بڑے لوگوں کا شیوا ہے خدارا آئیے ریاست کے چوتھے ستون سے وابستہ افراد اورمعاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کوکو پولیس گردی اور اس بے توقیری سے بچائیںاس جانبداراور سفارشی نظام کے خلاف آواز بلند کریں اور حکومت کے ایوانوں تک اپنی آواز پہنچائے آج زاہدی اس کا شکار ہے کل ہم میں سے کوئی اور قلم کار ہو سکتا ہے کیا۔
Police
پولیس کا کام صرف تماشہ دیکھنا ہے اور ان بڑے لوگوںکا کام اس طرح کے تماشے دکھاناہے جب تک پولیس نظام ٹھیک نہیں ہوگا جب تک اس ملک کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا ہر دور میں پنچاب پولیس نے یہ ثابت کیا ہے یہ نااہلی اور خوشامدی میں نچلی ترین سطحوں کو چھو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ پنچاب حکومت کی طرف سے نظر انداز کیاگیا اور پولیس کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی ضرورت اس امر کی ہیکہ اب پولیس کو روایتی پولیس کے دور سے نکال کر ایک جدید پولیس بنانے کی ضرورت ہے۔
انہیں جدید تربیت کے ساتھ اخلاقی وذہن سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ پولیس غیر جانبدار ہو کر اپنا کام کرے اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی معاشرتی برائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریںورنہ پڑھے لکھے لوگ اسی طرح سر راہ رسوا ہوتے رہیں گے اور پولیس کے بااثر لوگوں کے ہاتھوں کی لونڈی بنی رہے گی اور یوں بے گناہ لوگ اس فرسودہ نظام سے بغاوت کر کے غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پرہو گی ۔آخر میں اپنے پیارے دوست نسیم الحق زاہدی کا مختصر تعارف وہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ پنچاب کے جوائنٹ سیکرٹری اور ”روزنامہ آزاد ریاست” کے بیورو چیف لاہورہونے کے ساتھ ساتھ دو کتابوں کے مصنف ہیں۔