عید کی آمد آمد نے جہاں ہر ایک شہری کی مصروفیات میں اِضافہ کیا ہے وہاں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں نے بھی آسمانوں سے باتیں کرنا شروع کر دی ہیں اور ایسا اِس دفعہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہر عید پہ ہی ایسا ہوتا ہے جِس کا ذمہ دار عوام کبھی ضلعی انتظامیہ کو ٹھہراتی ہے تو کبھی حکومتوں کو اور ہم لوگ بھی اِس عوامی تنقید کو سُننے کے بعد اِس کی بڑے اچھے انداز سے عکاسی کرتے ہیں اِس بار بھی میں نے یہی تنقید سُننے کیلئے اپنے چند دوستوں کے ہمرا ایک مویشی منڈی کا رُخ کر لیا تقریباً آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم نے وہاں پہنچنا تھا جو کہ بڑا انجوائے فُل تھا خیر جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے شرارتاً بیوپار شروع کر دیا بہت سے لوگوں سے مُک مکا کی بڑی بڑی بولیاں لگائیں بہت سے لوگوں کو تنگ کیا کُچھ سے مذاق کیا کُچھ نے ہم سے کیا، یوں ہم تھوڑی ہی دیر میں اُن سے گھُل مِل گئے اِتنے میں بھوک اور پیاس نے جان لیا شروع کر دی جِسے مٹانے کیلئے ہم نے ایک ہوٹل کا رُخ کر لیا وہاں سے کھانا کھایا اور ایک شاپنگ سنٹر کی طرف چل پڑے شاپنگ سنٹر پہنچے تو ہم کِسی قسم کے مذاق کے موڈ میں نہ تھے اِس لئے یہاں پہنچتے ہی ہم اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ایک دوسرے کی مشاورت سے خریداری کرتے کرتے شوز سٹال کی طرف بڑھے تو وہاں سیل مین اکیلا تھا۔
اِس لئے وہ ہم سے پہلے کے آئے ہوئے دراز قد، گولڈن کلر کی چین، خوبصورت انگوٹھی، گولڈن کلر کی گھڑی، پینٹ شرٹ کے اوپر ویسٹ کوٹ پہنے ہوئے ایک ہاتھ میں 3 x6 سائز کا موبائل جبکہ دوسرے ہاتھ میں گھاڑی کی چابی پکڑے ہوئے ایک لمبی لمبی زُلفوں والا اِنتہائی خوبصورت نوجوان اور اِس کی ساتھی ایک جواں سالہ دوشیزہ کو فارغ کرنے کے بعد ہماری بات سُننا چاہتا تھا مگر اِنہیں کوئی کُچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا اِس لئے ہم اُن کی پسند یا نا پسند کا اِنتظار کرنے کی بجائے جو جو خریدا اُن کی رسیدیں ہاتھ میں تھامے ادائیگی ٹیبل پر چلے گئے وہاں ابھی میرے دو ساتھیوں نے ہی رسیدیں دی تھیں کہ وہ لڑکی لڑکا بھی ٹپک پڑے اور آتے ہی ہم سے آگے گھُس کر لڑکا بولا کہ یار یہ رسیدیں پکڑو اور پہلے ہمیں فارغ کرو ذرا جلدی ہے ٹیبل پر موجود شخص نے جمع تفریق کرتے ہوئے جلدی سے جواب دیا کہ پانچ ہزار روپے تھمائو ذرا جلدی کرو یہ سُنتے ہی نوجوان نے جلدی سے اپنی بیک پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور لڑکی سے کہتا کہ اُوہو ڈارلِنگ میرا تو پرس ہی گھر رہ گیا اب آپ ایسا کریں کہ اپنے پاس سے دے دیں نیکسٹ ٹائم میں لوٹا دوں گا یہ سُن کر لڑکی نے اپنے شاپنگ بیگ سے پرس نکالنے کی بجائے نیا جوتا نکالا اور لڑکے کی دھلائی کو شروع ہو گئی خیر ابھی پانچ سات جوتے ہی پڑے تھے کہ ہم سب آگے بڑھے۔
Eid Shopping
اِس کی جان بخشی کرونے کے بعد پُوچھا کہ بی بی ایسا کیا ہوا جو آپ نے اِس بیچارے کو پیٹنا شروع کر دیا لڑکی بولی کہ سالے کی جیب میں کھوٹا پیسہ نہیں اور لے آیا ہے مُجھے عید کی شاپنگ کروانے، اور رونے لگی وہاں موجود ایک دوسری خاتون ہمارے کہنے پر آگے بڑھی اور اِس نے اِسے کافی حوصلہ ہمت دلاتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیا ہو گیا ہے جو آپ اِس قدر زارو قطار روئے جارہی ہیں جِس پر اُس بیچاری نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا کہ اِس کی خاطر میں نے اُسے چھوڑا اور یہ بھی بھوکا ننگا اور مکار نکلا اِس سے تو وہی اچھا تھا جو سچا تو تھا اِتنے میں ایک دوسرا نوجوان یہ کہتے ہوئے ہمارے پاس سے گُزر گیا کہ میں نے کہا تھا نا کہ گاڑی تو کیا اِس کا تو گھر بھی رینٹ کا ہے یہ جملہ سُنتے ہی لڑکی نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے اور رِکشے میں بیٹھ گئی جبکہ لڑکے نے رقم ادا کرنی تھی اِس لئے وہ ہمارے پاس ہی رہ گیا جب ہم نے اِس سے پوچھا کہ بھائی یہ تو ہم سب نے دیکھ لیا مگر اصل معاملے کا علم نہیں ہوا کہ آپ دونوں کہ جھگڑے کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے تو لڑکا بولا کہ یار کیا بتائوں اِن ظالم حکمرانوں نے تو ملک کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ہمیں تباہ و برباد کر دیا ہے کِسی نے روٹی کپڑا مکان اور کِسی نے ملازمت کا کہہ کر ہمارے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔
نوجوان کا یہ طویل جواب سُن کر میں نے پوچھا کہ بھائی اِس میں حکومتوں کا کیا قصور؟ نوجوان سینے پہ ہاتھ رکھ کر لمبی سانس لیتے ہوئے کہتا کہ حکومت اگر ہم جیسے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کر دیتی تو آج مُجھ جیسوں کا یہ حشر نہ ہو رہا ہوتا اُس کا یہ جواب مُجھے بڑا عجیب سا لگا کیونکہ میں مذاق کے مُوڈ میں ہر گز نہ تھا اِس لئے میں نے اپنے دیگر دوستوں سے کہا کہ چلو بھائی چلیں یہ جوتوں کا ستایا تو سیاست پہ اُتر آیا ہے میرے اِس بات پہ اُسے بھی بڑا غصہ آیا اور کہتا کہ دیکھ لوں گا میں تُم سب کو تُم بھی سیاستدان یا اُسی کے ساتھی ہو، اِس دھمکی پر میں واپس لوٹا اور اُس سے پُوچھا کہ اُس لڑکی سے عشق کرنے کا آپ کو ہم نے کہا تھا، میاں نواز شریف نے کہا تھا، آصف علی زرداری نے کہا تھا، یا جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا، وہ خاموش رہا، میں نے پھِر کہا کہ بتائو نا اِس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
میرے دوبارہ پُوچھنے پر بھی جب وہ خاموش رہا تو ہم بھی چلتے بنے مگر گھر پہنچنے تک ہم یہی کہتے آئے کہ کاش ہم لوگوں کے سپنے دیکھنے کی بھی کوئی حد ہوتی، کاش اول جماعت سے لے کر ماسٹر ڈگری تک سکولوں اور کالجوں میں ملا زمت ملازمت اور ملازمت کے علاوہ کوئی اور سبق بھی دیا گیا ہوتا، خیر گھر پہنچا تو خیال آیا کہ یہ بات مُجھے اپنے قارئین کو بھی بتا دینی چاہئے کیونکہ عید کی آمد آمد ہے اور عید پہ شاپنگ کو تو ہر کِسی کا دِل چاہتا ہے۔ مگر اِس کیلئے کھوٹا پیسہ بھی ہونا ضروری ہے ورنہ (او ہو ڈارلنگ پرس تو گھر ہی رہ گیا ) کہہ کر بھی جان نہیں چھوٹنے والی پھِر اپنے آپ چھپانے کیلئے اُس لڑکی لڑکے کی طرح ذمہ داری ہمیں اپنی ہی منتخب کردہ حکومت پر ڈالنا پڑے گی اِس لئے عید گُزرنے تک ذرا سنبھل کے رہنا اگلی تحریر معمول کے مطابق عید کے بعدمِلے گی آپ میرے ای میل ایڈریس کے علاوہ شام 6بجے کے بعد میرے موبائل نمبر 03143663818 پر بھی مُجھ رابطہ کر سکتے ہیں(میری طرف سے آپ سب اور آپ کے اہلِ خانہ کو بہت بہت عید مبارک) (فی ایمان ِللہ)۔