حضرت آدم نے جب سے کرہ ارض پر قدم رنجہ فرمائے ہیں اُس دن سے آج تک گردش افلاک اور قافلہ شب و روز نے ناجانے کتنی شاندار ‘ عظیم الشان تہذیبوں کو ہڑپہ موہنجودڑو میں بدل ڈالا ‘ صدیوں حکمرانی کر نے والی سلطنتوں کو ہوا میں تحلیل کر دیا’ کتنے خانوادے مٹی میں جا سوئے ‘ لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں ‘ فاتح زمانہ لوگوں کو گمنامی کے اندھے غار میں اُتار دیا ‘ ہمالیہ جیسے لوگ مٹی کی چادر اوڑھ کر آسودہ خاک ہو گئے ‘ وقت کے طوفانوں نے گرانڈیل فلک بوس لوگوں کو مٹی چٹا دی’ دربار حویلیاں اُجڑ گئیں ‘ جن کے آگے ہاتھیوں کے لشکر پروٹوکول کے لیے چلتے تھے انہیں ہاتھیوں کے پائوں تلے روند دیا گیا ‘ آج کسی تاریخ دان کا دل مچلے تو ان لوگوں پر گمنامی کی خاک جھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر تا ہے ورنہ گمنامی تاریکی کی دھند میں قصہ ماضی ہو چکے ہیں لیکن گر دش لیل و نہار اور رفتار زمانہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تواتر سے پردہ تاریخ پر ابھرتے رہے جو کبھی بھی کو چہ اقتدار کے چبوتروں پر نہیں بیٹھے نہ عالم پناہ کہلائے نہ ہی پروٹوکول کے لشکروں میں اپنی دھاک بٹھائی نہ ہی شاہی قلعوں کے جھروکوں میں اپنا دیدار کر ایا نہ ہی اپنے نام کے سکے جاری کئے لیکن کروڑوں دلوں کے دل کے دھڑکن آج بھی ہیں جنہیں صدیوں کی الٹ پلٹ ابھی تک صفحہ عزت اور لوح شہرت سے محو نہیں کر سکی رب کائنات صدیوں بعد کسی بستی پر انعام کے طور پر ایسے لوگوں کو اتارتا ہے یہ ہیں کوچہ تصوف کے عظیم نفوس قدسیہ جو اس جہان سنگ و خشت میں آکر خدا اور اُس کی مخلوق سے پیار کر تے ہیں بے کس مجبور مخلوق کے دکھوں کا مداوا کر تے ہیں’ یہی لوگ عوام کے حقیقی سلطان ہو تے ہیں یہ لوگ ہر دور میں انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے اِس بزم جہاں میں آتے رہتے ہیں۔
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ شہر بستیاں جہاں پر حق تعالیٰ اِن کو اتارتا ہے ‘ تاریخ انسانی میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب رب تعالیٰ نے مادیت پرستوں بت پرستوں پر احسان عظیم کر تے ہوئے ایک ہی وقت میں ایک نہیں دو نہیں تین عظیم الشان کو چہ تصوف کے صدا بہار روشن چراغوں کو اِس دنیا میں بھیجا یہ لمحہ واقعہ تاریخ انسانی میں صرف ایک بار ہی ظہور پذیر ہوا جب تاریخ تصوف اور نسل انسانی کے تین عظیم ترین صوفی درویش ایک شہر میں تھے ‘ بوڑھے آسمان اور اہل دنیا نے یہ نظارہ پہلی اور آخری بار دیکھا قابل رشک تھے وہ لوگ جن کے سامنے یہ عظیم نظارہ تھا زمانہ ایک مردِ حق کے دیدار کے لیے صدیوں انتظار کی سولی پر لٹکتا ہے لیکن یہاں تو تین مرد ِ حق ایک ساتھ تھے۔
تاریخ صوفیا کا یہ عظیم الشان واقعہ 612ء میں اِسطرح پیش آیا کہ تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ‘ سلسلہ چشت کے عظیم صوفی بزرگ عطائے رسول نائب رسول خواجہ خواجگان جناب حضرت خواجہ معین الدین اجمیری اپنے لاڈلے مرید حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ملنے دہلی تشریف لاتے ہیں ‘ سارا شہر اور بادشاہ ہندوستان شمس الدین التمش قدم بوسی کے لیے حاضر تھا جب سارے لوگ بے نور آنکھوں کو ایمان کے نور سے منو ر کر کے چلے گئے تو شہنشاہ ہند نے شفیق لہجے میں قطب سے دریافت کیا قطب تم نے خطوط میں ایک نئے طالب حق مرید کا ذکر کیا تھا وہ ملاقاتیوں میں شامل نہیں تھا تو خواجہ قطب نے عرض کیا مرشد گرامی وہ چلہ کشی میں مصروف ہے اِس لیے سعادت حاصل نہ کر سکا تو شہنشاہ ِ معرفت خواجہ معین الدین اٹھ کھڑے ہو ئے اور بولے اگر وہ حق کا نور پانے کے لیے چلہ کش ہے تو کوئی بات نہیں ہم اُس کے پاس چلتے ہیں تو خواجہ قطب گلو گیر لہجے میں بولے کیا نصیب ہے میرے مرید کا کہ شہنشاہ ِ ہند اپنے غلا م کے پاس خو د چل کر جا رہے ہیں تو حقیقی دلوں کے سلطان تبسم آمیز لہجے میں بو لے قطب تیرا ہر مرید میرا مرید ہے اے قطب جو ایک بار تیر ے کو چے سے گزر گیا وہ میرا ہو گیا اب تاریخ صوفیا کے دو عظیم ترین مرشد مرید جنہوں نے کروڑوں زنگ آلودہ دلوں کے زنگ کو دھو کر نور حق سے بھر دیا گمراہی کے تاریک راہوں سے پکڑ کر راہ حق کے راستوں پر ڈال دیا جن کی ایک نظر نگاہ کیمیا تھی جس پر پڑھ گئی وہ پیتل سے سونے میں ڈھل گیا۔
آج یہی نگاہ ِ کیمیا تھی جو ایک نووارد راہ حق کے طالب پر پڑھنے والی تھی آج کسی کے بھاگ جاگنے والے تھے کیونکہ کو چہ تصوف کا عظیم ترین چشم معرفت خود چل کر پیاسے کے پاس جا رہا تھا راہ حق قرب الٰہی کے طالبوں کو فاقہ کشی عبادات ذکر اذکار چلہ جات شب و روز کی عبادتوں کے بعد قطرہ نور نصیب ہو تا ہے یہاں تو معرفت کا سمندر سالک کو سیراب کرنے اُس کے پاس جارہا تھا شہنشاہِ ہند خواجہ خواجگان عطائے رسول نائب رسول ۖ اپنے لاڈلے مرید حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ہمراہ اُس کمرے کے پاس آئے جہاں پر آنے والے وقتوں کا عظیم ترین صوفی نوجوان سالک کئی ہفتوں سے عبادات ریاضت اور سخت ترین چلہ کشی میں مصروف تھا۔
شہنشاہ ِ معرفت خواجہ خواجگان دروازے میں کھڑے آتش عشق میں کباب بنے نوجوان سالک کو دیکھ رہے تھے جو اپنی کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے میں مصروف تھا کئی ہفتوں کی فاقہ کشی اور چلہ کشی کی وجہ سے نوجوان سالک پر کمزوری نقاہت طاری تھی اچانک نوجوان سالک نے محسوس کیاکہ حجرے میں ایک خاص قسم کی خوشبو پھیل گئی ایسی خوشبو وہ زندگی میں پہلی بار محسوس کر رہا تھا خوشبو کی سحر انگیزی اُس کو کیف و نشاط بخش رہی تھی اِ س خوشگوار تبدیلی پر نوجوان طالب نے آنکھیں کھول دیں کہ کون سا خوشگوار واقعہ وقوع پذید ہوا ہے جو حجرہ خوشبوئوں سے مہک اٹھا ہے تو اچانک اپنے مرشد خواجہ قطب کی شیریں آواز کانوں میں پڑی کہ اپنی خوش نصیبی پر جتنا بھی فخر کروکم ہے کہ تم سے ملنے میرے مرشد شہنشاہ ِ ہند خواجہ معین الدین اجمیری ملنے آئے ہیں یہ سنتے ہی نوجوان سالک کی حالت خوشی سے غیر ہو گئی ادب میں اٹھنے کی کو شش کی تو لڑکھڑا کر گر پڑے دوبارہ پھر کو شش کی تو پھر گر پڑے تیسری بار قوت اکٹھی کر نے کی کو شش کی تو پھر گر پڑے اب سر زمین پر رکھ کر بے بسی سے رونے لگے تو شہنشاہ ہند نوجوان کی حالت دیکھ کر دل گرفتہ ہو کر آگے بڑھے اور قطب سے کہا قطب کب تک اِس نوجوان کو مجاہدوں فاقہ کشی سے گزاروگے آئو ہم دونوں مل کر اِ س کو بارگاہ الٰہی میں کھڑا کر کے قبولیت کے درجہ مقام تک لے جانے کی کو شش کر تے ہیں۔
نوجوان طالب ابھی بھی مسلسل رو رہا تھا تو خواجہ جی نے ایک بازو پکڑا قطب نے دوسرااب نوجوان کھڑا ہو گیا پھر شہنشاہ معرفت نے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے ‘ اے مالک ارض و سما سلسلہ چشتیہ کو عظمت و بزرگی دینے والے رب تیرے سامنے سوالی بن کر کھڑے ہیں اِس نوجوان پر بھی اپنا خاص کر م کر دے اِس کی دستگیری فرما اِس کو درویشی فقیری کے کامل درجے پر فائز کر دے اِس کی کوتاہیوں کو معافی فرما ‘ اے اللہ تیرے خاص کر م کے بغیر اِس کی تکمیل مکمل نہیں ہو سکتی اِس کے من کے اندھیروں کو دور فر ما اِس نوجوان کو اپنے خالص رنگ میں رنگ دے اِس کے بعد نوجوان کو اپنے سینے سے لگا لیا شہنشاہ ِ ہند کے سینے سے لگتے ہیں نوجوان سالک کو لگا سینے میں دبی چنگاری آگ کے بھانبھڑ میں بدل گئی ہے آتش عشق کے شعلوں سے جسم کا انگ انگ سلگ اٹھا جسم کی تاریکیوں میں لاکھوں سورج روشن ہو گئے تاریکیاں روشنیوں میں بدلنے لگیں شہناہ ِ معرفت خواجہ قطب کے سینے سے نور حق نوجوان مرید کے سینے میں منتقل ہو نے لگا زمین کی طرف دیکھا تو پاتال تک ہر چیز روشن تھی آسمان کی طرف دیکھا تو ساتوں آسمان نظر آنے لگے نوجوان مرید کو سخت فاقہ کشی چلہ جات ریاضت عبادت کے باوجود جو چیز نہ مل سکی وہ شہنشاہ ِ معرفت سلطان ہند کی نگاہ کیمیا نے کر دیا نوجوان مرید کو وہ دولت عرفان بتیس سال کی عمر میں مل گئی جو بڑھاپے میں بھی نہیں ملتی مرید کا نام فرید الدین مسعود گنج شکر تھا جو قطب ابدال کے مقام پر فائز ہو ئے اہل دنیا نے پہلی اور آخر ی بار تین عظیم ترین درویشوں کو ایک اجگہ پر دیکھا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org