تحریر : آصف لانگو جعفر آبادی سیالکورٹ کی تحصیل ڈسکہ میں پولیس اور وکلاء کے دوران پولیس کی مبینہ فائرنگ ڈسکہ بارکے صدر رانا خالد عباس سمیت دو وکلاء جاں بحق جبکہ ایک وکیل اور ایک راہ گیر ز خمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کیلئے ہسپتال منتقل کردیاگیا، لاہور میں وکلاء تنظیموں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں واقعے کے خلاف ہڑتال ، عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ اور تین روز تک سوگ کا بھی اعلان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی پورے پاکستان میں احتجاج کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ گلو پولیس نے ایک بار پھر شہریوں کا قتل عام کیا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے زمہ داروں کو سزا ہوتی تو آج یہ حمت کسی پولیس میں نہ ہوتا کہ کسی کا قتل کرتے ۔ تحریک انصاف احتجاج سانحہ کراچی یا سانحہ کوئٹہ کے لئے تو نہیں بلکہ اپنے کا رکنان کی وجہ سے احتجاج کا اعلان کی ہے ۔ جی ہاں رانا خالد عباس مقتول پی ٹی آ ئی کا سر گرم رکن تھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ پنجاب میں ہوا ہے جہاں تحریک انصاف کو ایسے حالات میں سیاست چمکانے کی جلدی بھی ہوتی ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائد کے حکم پر ریلیاں نکالی گئی، پنجاب پولیس اور پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ گو نواز گو کے نعروں نے حکومت مخالفت کی فضا پیدا کر دی ۔ جس طرح میں نے تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی رہنماء میر گلاب عمرانی کی قیادت میں ڈیرہ اللہ یار پریس کلب کے سامنے احتجاج میں پہنچا تو سینکڑوں کارکنان نے ڈسکہ میں شہد وکلاء کے حق میں اور پنجاب حکومت کے خلاف انتہائی نعرے بازی کی اور پمفلیٹ بھی اٹھائے تھے۔ خیر ! پی ٹی آ ئی کا احتجاج کرنا حق جواز ہے ۔ وکلاء نے مطالبہ کیا کہ سانحہ ڈسکہ کی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے زریعے مکمل انکوائری کرائی جائے اور اس میں پولیس کا کوئی نمائندہ شامل نہ ہو
واقعے کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں وکلاء برادری سڑکوں پر نکل آ ئے ، ملک بھر سے وکلاء و سیاسی کارکنان نے اس کی سخت الفاظوں میں مذمت بھی کی ۔ لاہور میں وکلاء نے فیصل چوک تک احتجاجی ریلی نکالی ، اس دوران وکلاء نے خاردار تاریں اور بیر یئر ہٹاتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی جسے اسمبلی کی سکیو رٹی اور پولیس نے ناکام بنا دیا، مشتعل وکلاء نے اسمبلی کے مر کزی دروازے پر سکیو رٹی اہلکاروں کی کرسیاں اور میز اٹھا کر پھینک دیں اور واک تھروگیٹ کو بھی ٹھوکریں ماریں ، غصہ جاری تھا کہ قانون دان وکلاء کی طرف سے کمشنر لاہور ڈو یژ ن عبد اللہ سنبل کا گاڑی پر بھی حملہ کیا گیا اور اسکے شیشے اور نمبر پلیٹ توڑ دی گئی تاہم کمشنر اس حملے میں محفوظ رہے۔
میڈیا کے مطابق گزشتہ روز سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ سٹی کے ایس ایچ او شہزاد وڈائچ کے ہمراہ ٹاؤن میو نسپل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے تجاوزات کے خلاف آ پریشن جاری تھا کہ وہاں مقامی افراد اور وکلاء نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں اس سلسلے میں مزید وقت دیا جائے ۔ اس دوران مظا ہرین کو منتشر کرنے کے لئے ایس ایچ او شہزاد نے فائرنگ شروع کر دی جس کی زد میں آ کر ڈسکہ بار ایسو سی ایشن کے صدر رانا خالد عباس وکیل ذوہیب ساہی، عرفان چوہان اور ایک راہگیر سمیت سمیت 4فراد زخمی بھی ہوگئے ۔ زخمیوں کو فوری طور پر سول ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم رانا خالد عباس اور عرفان چوہان زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئے ۔ رانا خالد عباس صاحب رواں سال کے جنوری میں بار ایسو سی ایشن کے صدر منتخب ہوئے تھے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کے سر گرام کارکن بھی تھے ۔ ایس ایچ او شہزاد کو ڈی پی او سیالکوٹ ڈاکٹر شہزادآصف خان کے حکم پر گرفتار کر لیا گیا۔
Police
پولیس کا موف ہے کہ افراد کی ہلاکت ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق بار کونسل کے ارکان بار کے اندر تجاوزات ہٹانے کی شکا یت لیکر تحصیل میونسپل ایڈمنسٹر یشن کے دفتر گئے تاہم وہان پر موجود ایڈمنسٹریشن کے اہلکاروں نے کام کرنے سے معذ رت کر لی جس پر وکلاء نے دفتر کے باہر احتجاج کیا ۔ اس واقعے کے عینی شاہد اور ڈسکہ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر ملک نذر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ بار کے موجودہ صدر رانا خالد عباس اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے اہلکا روں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لئے تھانہ سٹی پہنچے تھے ۔ اس دوران مذکورہ تھانے کے انچارج شہزاد وڑائچ اور وکلاء کے تلخ کلامی ہوگئی جس پر پولیس افسر نے اپنے باڈی گارڈ سے سرکاری بندوق چھین کر فائرنگ کر دی، عینی شاہد کے مطابق فائرنگ ہوئی کے بجائے ٹارگیٹ فائرنگ تھاجس کے نتیجے میں بار کے صدر خالد عباس اور وکیل عرفان چوہان کی ہلاک ہوگئے۔
انچارج تھانہ اس غلطی کے بعد فوری طور رفوع چکر ہوگیا ۔ لیکن وہاں پولیس کے پٹے بھائی پولیس آ فیسر شہزاد عاطف کے مطابق ہلاکتیں براہ ِ راست فائرنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ہو رہی ہے جو بھی چیز سامنے آ ئے گی لوگوں اور عدالت کو آ گاہ کیا جائیگا۔ اس واقعے کے بعد ڈسٹرک اینڈ سیشن جج بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے ہیں۔ واقعے کے بعد وکلاء نے قانون کی دھجیان اڑا دی اِن وکلاء اور ایس ایچ او تھانہ پولیس آ فیسر میں کوئی فرق نہیں رہا۔
ایس ایچ او نے قانون کا ٹھیکدار سمجھتے ہوئے فائرنگ کر کے لوگوں کو قتل کیا اور وکلاء نے ہسپتالوں ہنگامائی آ رائی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ہسپتال میں کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیئے جس کے بعد وکلاء نے لوگوں کا راستہ بھی بند کیا باہر ٹائرز نذر آ تش کرتے ہوئے احتجاج بھی کیا تھانے کا گھیراؤ کرتے ہوئے وہاں بھی احتجاج کیا ۔ جہاں سے آنسو گیس کی شیلنگ بھی برداشت کی ، دوسری جگہ گوجرانوالہ سیشن کورٹ کے باہر بھی وکیلوں نے احتجاج کرتے ہوئے قانون کو توڑ دیا پولیس کی گاڑی کے شیشے بھی توڑ دیئے۔ لیکن لاہور کے وکلاء نے صرف ہڑ تال اور عدالتی کاروائیوں سے بائی کاٹ کا فیصلہ کیا ریلیاں بھی نکالی یہاں تک بیر یئر اور خار دار تاریں ہٹائے اور پنجاب اسمبلی کی جانب رخ بھی کیا مگر سیکورٹی نے ان کو کنٹرول کیا۔
Lawyers Protest
مسئلہ وہاں ناجائز تجاوزات پر احتجاج و مقدمہ درج کرنے کا تھا وکلاء اپنی بہادری دکھائی اور پولیس نے اپنا، جس کے نتیجے میں دو وکلاء تو اس دنیا سے چلے گئے اور قاتل پولیس کی زندگی برباد ہوگئی ۔ اس پر قتل کا کیس ہے وہ اپنی جان بچاتے ہوئے ادھر ادھر بھٹک رہا ہے کیونکہ پولیس کی نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے گا۔ پولیس اور وکلاء کی لڑائی سمجھ سے بالاتر ہے کہ قانون بنانے اور قانون نافذ کرنے والے لوگ بھی ایسے ہی قانون شکنی کریں گے تو نقصان دیکھیں گے جیسا کہ دو وکلاء نے اپنی زندگی اور پولیس نے اپنی نوکری و آ زادی سے ہاتھ دھو لیا ہے ۔ وکلاء کے پاس قانون تھا وہ احتجاج کرتے ہوئے مقدمہ درج کرواسکتے تھے نہیں تو عدالت سے رجوع کرتے اور عدالتی حکم پر ایف آ ئی آ ر کرتے ناجائز تجاوزات کے خلاف مقدمہ لڑتے کامیابی بھی حاصل کر سکتے تھے ۔
وکلا ء کی جلد بازی نے وکلاء کو نقصان دیا اور پولیس کی شامت کہ وکلاء سے جو پولیس کا مائی باپ ہوتے ہیں ان سے ٹکرا رہی ہے اور قتل بھی کر رہی ہے نتیجہ سامنے ہے دو قتل ہوئے ایک پولیس افیسر فرار ہو گیا تو کیا فائدہ قانون ہاتھ میں لینے کا؟ بہرحال: یہ واقعہ قابل مذمت ہے کیونکہ واقعہ میں دو وکلاء کا قتل ہوا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پولیس آ فیسر کو وکلاء کی احتجاج کو بجائے فائرنگ سے مشتعل کرنے کی کوشش کرنے کے مذاکرات کے زریعے ہی کنٹرول کرنا تھا لیکن وکلاء ( سوری بڑے لکھے جاہل) نکلے انھوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے توڑ پھوڑ اور گیراؤ کیا جو کہ جاہل سیاسی ورکروں کا کام تھا وکلاء نے کر کے اپنے صدر اور ایک ہم منصب ساتھی ست ہاتھ دھو لیا ہے ۔ خدا خیر کرے یہاں پاکستان میں قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے لوگ ہی اس کی دھجیاں اڑاتے پھرتے ہیں تو ملک کی عام عوام کی کیا حال ہوگی اس سے بخوبی واقفیت ہوتا ہے ۔