سانحہ ڈسکہ

Daska Tragedy

Daska Tragedy

تحریر: روہیل اکبر
25 مئی کو ڈسکہ میں ایک غنڈے پولیس والے کے ہاتھوں غریب اور مجبور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے دو وکیلوں رانا خالد عباس اور عرفان چوہان کا سرعام قتل ہو جاتے ہیں ایس ایچ او ڈسکہ سٹی شہزاد وڑائچ نے اس بات پر مشتعل ہو کر دو افراد کی جان لے لی کہ اسکے خلاف ’’ کتے ‘‘ کے نعرے کیوں لگ رہے تھے۔

اس وقت پاکستان کی آبادی تقریبا 20 کروڑ کے لگ بھگ ہوگی جن میں سے تقریبا 56فیصد لوگ پنجاب میں آباد ہیں ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں ملک میں غربت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ کل آبادی کا تقریبا 60فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے سیاستدانوں نے عوام کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف ’’کتے ،کتے ‘‘ کے بھر پور نعرے لگوائے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو گلے میں رسی ڈال کر کھینچنے کی باتیں بھی کی گئی اسی کتے کے نعرے سے ایوب خان اقتدار سے الگ ہوگئے تھے اقتدار کے پجاریوں نے پولیس کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوئے عام شاہراہوں سے لیکر پولیس اسٹیشن تک عوام کو ’’ کتا ‘‘ بنا کر بھونکنے پر مجبور کر دیا۔

اس وقت بلوچستان کے 84،خیبر پختونخواہ کے 218 ،سندھ کے 440،اسلام آباد کے 13اور پنجاب کے 637پولیس اسٹیشن عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں جہاں جلاد قسم کے افراد کالی وردیوں میں ملبوس لوگوں کو آئے روز ’’کتا ‘‘ بنا رہے ہیں پنجاب پولیس کے ایک لاکھ80ہزار شیر جوان آنے والے ہر حکمران کے ’’ وفادار ‘‘بن جاتے ہیں جو اپنی نوکری بچانے سے تعیناتی تک کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوجاتے ہیں ملک بھر کے 1392پولیس اسٹیشنوں میں بیٹھے ہوئے ان ’’ وفاداروں‘‘ کے پاس جاتے ہوئے عوام کا خون خشک ہوتا ہے کیونکہ ہر آنے والے کی ماں ،بہن اور بیٹی سے لیکر آباؤ اجداد تک کی شان میں جو قصیدہ گوئی یہ کرتے ہیں وہ شائد ہی آج تک کسی اور نے کی ہو ،چادر اور چاردیواری کا تقدس ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا صرف پنجاب ہی نہیں ملک کے ہر پولیس اسٹیشن میں لوگ صرف اس وقت جاتے ہیں جب پانی انکے سر سے گذر جائے ورنہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل لوگ ان تھانوں میں جائے بغیر ہی کرلیتے ہیں کیونکہ جو پریشانی اور تکلیف انسان تھانے میں جاکر برداشت کرتا ہے وہ شائد ہی کسی اور جگہ نصیب ہوتی ہو جس کام لیے پیسہ یا سفارش نہ ہو اسکے ہونے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Punjab Police

Punjab Police

چھوٹی موٹی سفارش اور غربت کام کو مزید خراب کردیتی ہے جسکی سفارش تگڑی قسم کی ہو یا پیسے کھلے استعمال کرنا جانتا ہووہ شخص تھانے میں جائے بغیر اپنے سب جائز اور ناجائز کام منٹوں میں کروالیتا ہے سانحہ ڈسکہ سے 2روز قبل کا ایک واقعہ لاہور کے تھانہ مغل پورہ میں بھی پیش آیا یہ وہ شہر ہے جہاں ملک کے وزیر اعظم میاں نواز شریف انکے چھوٹے بھائی وزیراعلی پنجاب،سمیت صوبے کا ہر انتظامی امور کا سربراہ موجود ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں پر پنجاب کے تقریبا ڈھائی کروڑ عوام کے 368 منتخب نمائندگان کا ایوان ہے جن کی موجودگی میں لاٹھی گولی کی سرکارکے ’’ وفاداروں‘‘ نے شالیمار ہسپتال کے ایک ڈاکٹرحماد نعیم کے بڑے سفارشی کے حکم پر ہسپتال کے درجہ چہارم کے چار ملازمین کو پکڑ کر کتا بنا دیا۔

کلینر زاہد ،اپریٹر ساجد ،وارڈ بوائے کامران اور نرس سمیرا کا غریب ہونا ان کے لیے سزا بن گیا پوری رات جس بے دردری سے پولیس نے ان افراد کو تشدد کا نشانہ بنایاوہ ناقابل بیان ہے رات بھر تشدد کے تمام طریقے آزما کر صبح ان ملازمین کو چھوڑ دیا گیاملک کے ایسے علاقے جہاں نہ کوئی خادم اعلی ہے نہ چیف سیکریٹری بیٹھتا ہے نہ آئی جی موجود ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی انسانی حقوق کی تنظیم موجود ہوتی ہے وہاں پر صرف پولیس ہوتی ہے اور وہ جو کچھ وہاں کررہی ہے وہ لاہور پولیس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ایک عام انسان اپنے کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے پولیس اسٹیشن نہیں جاتا بلکہ سب سے پہلے کسی نہ کسی وکیل کے پاس جاکر اپنامسئلہ بیان کرکے دلی اطمینان اور تسلی محسوس کرتا ہے۔

ڈسکہ پولیس کے غنڈے نے اسی مسیحا کو یوں بے دردری سے قتل کردیا جیسے کسی کی جان لینا کوئی بات ہی نہیں ہے اختیارات اور یس سر کے نشہ نے جہاں حکمران طبقہ کا دماغ خراب کررکھا ہے وہی پر پولیس والے بھی غنڈے بن چکے ہیں عوام کوان کے پاس جانے سے احساس تحفظ کی بجائے ذلت کا احساس زیادہ ہوتا ہے اب تو تھانے بھی سیاستدانوں کی جاگیر بن چکے ہیں جہاں آئے روز عوام کو نہ صرف کتا بنایا جاتا ہے بلکہ گلے میں رسی ڈال کر بھونکنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی پولیس والے کو کتا کہہ دے تو پولیس والے اپنی پستول سے قتل کردیتے ہیں کب یہ نظام بدلے گا اور کب عوام ان سے آزاد ہو گی ؟

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03466444144