اعداد و شمارکا گورکھ دھندہ

Ishaq Dar

Ishaq Dar

تحریر : ایم سرور صدیقی
ایک دانشور نے کہا تھا جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں جھوٹ۔ سفید جھوٹ اور اعدادوشمار موجودہ وفاقی حکومت نے جو اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اسے اعدادوشمارکا گورکھ دھندہ کہا جا سکتا ہے اس بجٹ میں وزیر ِ خرانہ اسحاق ڈار نے کسی چکر باز حسینہ کی طرح عوام کو چکرپہ چکر دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جس سے عام آدمی چکرا کررہ گیا ہے ایک ستم ظریف نے اسے عوام پر ڈرون حملہ قراردیاہے وفاقی بجٹ کی خاص خاص باتیں یہ ہیں سیمنٹ، دودھ، سٹیشنری، ڈائپر، مشروبات پرنئے ٹیکسزلگادئیے گئے ہیں زندہ مرغی پر کسٹم ڈیوٹی 6% کر دی گئی ہے اس کے علاوہ 1500 کے قریب ضروری اشیاء پرکسٹم ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جس سے لوگ شدید متاثر ہونے کااحتمال ہے پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ غریبوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ماہرین کہہ رہے ہیں کہ بجٹ میں بالواسطہ ٹیکسزلگاکر عام آدمی پر بہت زیادہ بوجھ لاددیا گیاہے ایک اہم بات یہ ہے کہ پیش کردہ 5082 ارب کے بجٹ میں 1280 ارب کا خسارا ظاہرکیا گیاہے جبکہ وصولیوںکا ہدف 3621 ارب قرار دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت وصولیوںکا ٹارگٹ پورا نہ کرسکی تو عوام پر مزید ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں گذشتہ سال بھی حکومت نے کھربوںکا منی بجٹ پیش کرکے عوام کا کچومر نکال دیا تھا آثار بتاتے ہیں ا س سال بھی ایسا ہونا یقینی ہے کیونکہ کسی حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں جس سے وہ100%وصولیوں کا ہدف پورا کر سکے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے تین سال کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی عام آدمی کا جینا دوبھرہوگیاہے۔۔۔ کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

Budget

Budget

حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ وفاقی بجٹ میں غریبوں پرکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان کا ہروزیر ِ خرانہ ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتاہے ۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتا ہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے۔

اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں تو سال بھر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کمی کیا ہونی ہے اکثر ریٹ بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں۔

بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے۔بجلی اہو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اتارچڑھائو کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔

Inflation

Inflation

عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں۔

عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب!اسحاق ڈار صاحب ہمیں آپ کا پیش کردہ بجٹ قبول ہے لیکن ایک وعدہ کریں کہ اس کے بعد سال بھر کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ایک دانشورنے کہا تھا جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں جھوٹ۔سفید جھوٹ اور اعدادوشمار2016-17 کے بجٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ بھی دانشور کی بات پر ایمان لے آئیں گے یہ بجٹ اعدادوشمارکا گورکھ دھندہ ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر : ایم سرور صدیقی