تحریر : شاہ بانو میر اچھا یہ ہے کینہ توز نگاہوں سے تولتی نگاہوں سے اس کے گرد گھوم کر چکر لگا کر اپنی ممکنہ تسلی کرتے ہوئے بھاؤ کم رکھنے کیلئے عام لہجے میں بولا ٹھیک ہے بس بیزارگی سے بازاری انداز میں سامنے موجود بیوپاری باپ کے تاثرات دیکھنے لگا وہاں حرص کی چمک آنکھوں میں چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ۔ سپاٹ چہرے کچھ توقف کے بعد ہزار کا نوٹ اسکی جانب بڑہاتے ہوئے بولا ۔ یہ لے پکڑ یہ کیا ہے؟ صرف ہزار روپیہ؟ ہزار روپیہ کم ہے؟ وہ اس نشئی کی حالت سے بخوبی واقف تھا کہ اس وقت اس نشے کی طلب تھی ہر قیمت پر وہ یہ نوٹ قبول کرے گا تین وقت کی روٹی کپڑا دوا دارو کا ذمہ میرا ہے ابھی تو یہ بھی نہیں پتہ کہ کسی کام کا بھی ہے یا تیری طرح رگ رگ میں نشہ کی کاہلی بھری ہوئی ہے۔
چل جا اب ادہر آ تو اس نے اس سے پہلے کہ وہ نوٹ جیب میں ڈالتا اس کو اچک کر پکڑ لیا سہمے ہوئے بچے کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے چپڑے ہوئے تیل میں گھنے بالوں والےشراب کی بو سے مزین اس ہونق سے شخص نے دور جاتے ہوئے اس جلاد باپ کو غلیظ گالی بکی اور بچے کے ساتھ دوسری طرف مُڑ گیا ۔ دس بارہ سالہ بچہ نجانے گھر میں کیسے حالات دیکھ چکا تھا کہ اس نے نہ آنسو بہائے اور نہ چیخ و پکار کی کسی روبوٹ کی طرح عامل کے پیچھے ایک معمول کی طرح سر جھکائے چلتا رہا ۔ داتا دربار کا یہ ایک نسبتا سنسان گوشہ ہے جہاں انسانیت محض ایک ہزار میں جیتے جاگتے زندہ انسانی بچے کو فروخت ہوتے دیکھ کر ہماری بے حسی پر ماتم کناں ہے۔
یہ داتا کی نگری ہے لاہور میں داخل ہوتے ہی ان کا دربار ہے ؛ چوبیسوں گھنٹے منتیں مانگنے والے اور مرادیں پانے والوں کا ہجوم رہتا ہے لنگر کی تقسیم دن رات کے فرق کے بغیر جاری رہتی ہے ۔ یہ ان بزرگوں کی وہ دینی محبتیں ہیں جن کے باعث یہ دنیا سے جا کر بھی دن رات روشنیوں میں خوشبوؤں میں معطر رہتے ہیں۔ شہر ہیں یا دیہات ان کے چاہنے والے عقیدت مند پورے ملک سے بیرون ملک سے آکر چادریں چڑہاتے ہیں اسی کے عقب میں اور کہیں تنہا گوشے میں پاکستان کی مسخ شدہ ذہنی بیمار لوگوں کے کالے دھندے بھی عروج پر چمکتے ہیں۔
Kidnap
اغواء شدہ بچوں کا بھاگ کر یہاں پناہ لینا عام بات ہے ۔ نشے کے عادی کالے دھن سے جاری کالے کاموں والے اللہ کے قہر اور اس مبارک جگہ کے تقدس کو پائمال کرتے ہوئے قانون کی نگاہوں سے خود کو اوجھل سمجھتے ہیں اور بے جگری سے یہاں عورتوں کی خرید و فروخت اور ایک شہر سے دوسرے شہر بچوں کی عورتوں کی ترسیل کی جاتی ہے۔ قرب قیامت کے اثرات ہیں کہ نشئ شرابی چور کاہل غریب مادہ سانپ اپنے ہی انڈے پی جاتی اور بچے کھا جاتی ہے۔ بین اسی طرح یہ ظالم بھی اپنے جگر گوشوں کو کبھی جوئے میں رقم کیلئے ضرورت پڑنے پر ان کو ہزار پانچ سو میں فروخت کر دیتے ہیں جیسے وہ کوئی سبزی بھاجی ہیں۔
یہی بچے ہیں جن کو جیب تراشی سکھائی جاتی ہے کوئی منہ زور ہو تو اس کے کسی عضو کو بطور سزا خراب کر کے عمر بھر کیلئے سڑکوں پر بھیک مانگنےکیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہی بچے ہیں جو آوارہ طبع لوگوں کیلئے راحت کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ نشہ آور اشیاء کی ایک جگہ سے دوسری جگہ محفوظ فراہمی کو ان کے توسط سے آسان کیا جاتا ہے۔ منشیات فروشی کی مد میں بھی انہی کو تربیت دے کر مستقبل کیلئے خطرناک منفی سوچ کو پروان چڑہایا جاتا ہے۔ پاکستان کتنا تجھے نوچا جائے گا کتنا تجھے لوٹا جائے گا کتنا برباد کریں گے تیرے اپنے لوگ اپنی نسل کو ؟ تعلیم کا علم کا دین کا نور کا فقدان ذہنوں کو منفی سمت پر بڑہاتا جا رہا ہے۔
جس نسل کو قائد اعظم بننا تھا علامہ اقبال بن کر پھر سے بحالی شعور کیلئے عوام نامی اس بے ہنگم منتشر گروہ کو قوم بنانا تھا وہی بیچے جا رہے خریدے جا رہے ؟ جس ملک کی عورت کو شوہراور دیور ملی بھگت سے جوئے میں ہار جائیں کونسا قانون اس کی بازیابی کے بعد مجرمان کو سزا دے گا؟ کوئی نہیں اس ملک میں محض مذاق ہے ۔ سیاست چمکانے کیلئے حربے ہیں بس ۔ ماضی میں گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد کو اگر سر عام سولی پے چڑہایا جاتا تو یقینی طور پے جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوتی ۔ افسوس ہر جرم پر حیثیت والوں نے سیاست کی انسانیت سسک سسک کر دہائی دے دے کر تڑپ تڑپ کر مر گئی اور مجرمان دندناتے رہے اور مزید قوت پکڑتے رہے ۔ اب تو حد ہو گئی بچے وہ بھی ہزار پانچ سو میں ایسی پاک مبارک سعد جگہ پر یہ مکروہ دھندہ کب سزا پائے گا؟ داتا تیری نگری میں۔