تحریر: نمرہ فرقان ”زندگی کبھی کبھی انسان کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہے۔“وہ لال جوڑے میں ملبوس بنی سنوری کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ ہر چیز سے بیگانہ وہ قلم اٹھائے لکھتی چلی جارہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اس کے لفظوں کو کسی نے زبان دے دی ہو۔ ”میں آج ایک عجیب مشکل میں ہوں۔ کیا یہ خوشی کا دن ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔“ اس کی آنکھیں اسکے دل میں اٹھتے طوفانوں کا پتہ دے رہی تھیں۔ ”سنا ہے یہ دن ہر لڑکی کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہوتا ہے تو پھر میں خوش کیوں نہیں۔“ غم کا ایک قطرہ اس کی آنکھ سے امڈ کر اس کے چہرے پہ رقص کرنے لگا۔
اس کے سرخ گال مزید سرخ ہو گئے تھے ”بابا نے تو ہمیشہ مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھا مگر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ ان کی جان نے ان کی جان ہی نکال دی۔“ اس نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسووں کو اپنی لرزتی انگلیوں سے صاف کیا۔”مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب عاقل کے والدین میرے لیے رشتہ لائے تھے۔ امی بابا کتنے خوش تھے نا۔ بابا تو تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے دنیا کی ساری خوبیاں اسی میں ہوں۔ وہ ہر لحاظ سے بہت اچھا تھا۔ اپنے نام کی طرح عقلمند سمجھدار اور سب سے بڑھ کر سب کا احترام اور خیال کرنے والا۔ ھم درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے تو اس نے اور اس کے والدین نے بھی ہم سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
luck
کبھی کبھی تو میں اپنی قسمت پر رکش کرنے لگتی تھی۔ وہ سب اتنے اچھے تھے کہ بابا نے زیادہ چھان بین کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کاش! کر لیتے۔‘ ‘وہ ٹھہر گئے۔ آنسو تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے۔ اس نے ہاتھ میں تھاما قلم نہ روکا اور لکھتی رہی۔ پھر ایک دن زندگی بالکل پلٹ گئی۔ شادی میں تین دن باقی تھے۔ گھر میں تقریبات کا آغاز ہو چکا تھا۔ میں مایو کے پیلے جوڑے میں ملبوس سیڑھیاں اتر کر نیچے والے کمرے میں جا رہی تھی جب امی اور بابا کی دکھ بھری آواز سن کر میں ٹھٹھک گئی۔ ”اب تو میں کچھ نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ میں انکی شرط پوری کردوں۔ گھر میں مہمان بھرے پڑے ہیں یہ شادی ٹوٹ گئی تو بہت بدنامی ہو گی۔
اب اور کوئی چارہ نہیں“ بابا کے یہ الفاظ سن کے تو جیسے میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ میں کچھ سوچے سمجھے بغیر کمرے میں گھس گئی۔ بابا کے چہرے کا رنگ اور امی کی آنکھوں کے آنسوو ¿ں نے میرے سارے سوالوں کے جواب دے دیے تھے۔ آنے والے تین دنوں میں نے بابا کو یا تو گھر میں موجود ہی نہ پایا اور اگر دیکھا بھی تو یا تو وہ کسی دوست سے ادھار مانگ رہے تھے یا پیسوں کا حساب کررہے تھے۔
Diary
آج خدا خدا کر کے وہ دن بھی آگیا،جس دن سے چند دن پہلے تک میں نے اپنی زندگی کی ساری خوشیاں وابستہ کر رکھی تھیں۔ گھر چھوڑنے کا دکھ تو ہے ہی مگر اپنے گھر والوں کو اس قدر تکلیف دے کر چھوڑنے کا دکھ میری جان نکال رہا ہے ، وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ وہ لکھ رہی تھی کہ چند لڑکیوں نے بارات کے آجانے کی خبر دی اور اسے اپنے ساتھ لے گئیں۔ جاتے جاتے وہ اپنی ڈائری کھلی چھوڑ گئی تھی۔ اس نے لکھا تھا” میں سوچتی ہوں کہ نا چاہتے ہوئے بھی میرے والدین میری ہی وجہ سے دکھ اور تکلیف کا شکار ہو گئے۔ اب ان دکھوں کی قبر پر میں اپنی خوشیوں کا محل کیسے تعمیر کر سکتی ہوں۔؟