بیٹی کا خط باپ کے نام

Caravan

Caravan

تحریر: محمد صدیق پرہار
گھروالے سفر کی تیاری کررہے ہیں۔ سامان باندھا جارہا ہے۔ سب گھروالے، بڑے، چھوٹے، مرد وخواتین، بچے سفر پر جانے والے ہیں۔ قافلہ سالارکی کمسن بیٹی یہی سوچ رہی تھی کہ وہ بھی قافلہ کے ساتھ جائے گی۔ اسے والدین کی شفقت سے دوری، بھائیوں سے جدائی کی خبراس وقت ہوئی جب قافلہ سالار باپ نے کلاوے میں لے کر شفقت پدری کے آنسوئوں کے ساتھ کہاکہ بیٹی تو بیمار ہے اس لیے توابھی گھرمیں ہی رہو۔شفیق باپ کی زبان سے یہ بات سن کروہ بیٹی بیہوش ہوکرگرپڑتی ہے۔ہوش آنے پرماںکے دامن سے لپٹ جاتی ہے۔کبھی باپ کے پائوں پکڑتی، کبھی چچائوں کے آگے ہاتھ جوڑتی مجھے بھی ساتھ لے چلو ۔بیٹی فریادسن کرباپ آبدیدہ ہوجاتا ہے۔ اورکہتا ہے بیٹی تم صبرکروایک ماہ کے بعدتیرابھائی آئے گاتمہیں لے جائے گا۔بیٹی نے کہا کیاہوامنزل دورہے ، کیا ہوا جوراستہ دشوارہے، کیاہواجومجھے بخارہے،کیاہواجوسواری نہیں۔اباجان!مجھے سواری کی ضرورت نہیں ہے، جس گھوڑے میرا چھوٹا بھائی سوارہوگااس گھوڑے کے آگے آگے دوڑتی چلی جائوں گی۔گرم لوہے کے تھپیڑے قبول ہیں، بھوک اور پیاس منظورہے،پہاڑوں سے ٹکراجائوںگی،ندیاںچیرلوںگا،خدکاواسطہ مجھے چھوڑ کے نہ جائوبیٹی سمجھ کے نہ سہی قافلے کی خادمہ سمجھ کے ہی لے چلومیں راستے میںکسی کونہ ستائوںگی،ہرایک کاحکم مانوںگا،مجھے بھی ساتھ لے چلو۔جب بیٹی نے دیکھا کہ باپ کسی صورت ساتھ لے جانے کوتیارنہیںتوحسرت بھری نگاہوںسے بھائی کی طرف دیکھا۔بھائی بہن کی بات سمجھ گیااورباپ سے عرض کیاکہ جب اور لوگ ساتھ جارہے ہیں تومیری بہن کیوںنہیںجاسکتی۔قافلہ سالارنے برستی آنکھوںکے ساتھ کہاکہ تیری بہن وہ منظرنہیں دیکھ سکے گی جوہونے والا ہے۔ آخرکارقافلہ سالاراپنی بیماربیٹی کوگھرمیں چھوڑ کراللہ تعالیٰ ،رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سپردکرکے قافلہ کولے کرروانہ ہوگیا۔

یہ قافلہ سالارامام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں۔ جس بیٹی کوگھرچھوڑااس کانام صغریٰ ہے۔ جس بھائی نے ایک ماہ بعدآکرلے جاناتھا وہ شہزادہ علی اکبررضی اللہ عنہما ہیں۔دن گزرتے گئے، راتیں بیت گئیں،شہزادہ علی اکبرنے ایک ماہ بعدآناتھا تین مہینے گزرگئے نہ علی اکبرآیااورنہ ہی باپ۔نہ عابدکاکوئی پتہ ہے نہ اصغرکا،نہ پھوپھی کی کوئی اطلاع آئی نہ ماںکی۔صبح ہوتی تودروازے پربیٹھ جاتی اورجوبھی پاس سے گزرتااس کادامن پکڑ کرفریادکرتی اورپوچھتی اے خداکے بندے تونے میرے باپ کوکہیںد یکھا ہے توبتائو،میری بہن کوکہیں دیکھاہے تواس کاحال سنائو،میرے بھائیوںکاکچھ پتہ ہے توبتائو مگروہ امام عالی مقام کی بیٹی کودیوانی سمجھ کردامن چھڑاکرآگے نکل جاتا۔شام کے وقت پرندوںکوگھونسلوںمیں واپس آتے دیکھ کراوربھی بے چین ہوجاتی اورسوچتی کہ میرے بھائی بھی دورگئے تھے،میراباپ بھی پردیس گیاتھا۔ یہ پرندے توصبح کوجاتے اورشام کوواپس آجاتے ہیں میرے گھروالوںکوتین مہینے ہوگئے وہ ابھی تک کیوںنہیں آئے۔رات ہوتی توبھوکی پیاسی ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پرلیٹ جاتی۔دروازہ ہواسے بھی ہلتاتواس امیدپراٹھتی اوردروازہ کھولتی میرابھائی علی اکبرآیا ہے۔مدینے سے باہرنکل جاتی ہرمسافرکے پائوںپکڑکرگریہ وزاری کرتی اورپوچھتی اے اللہ کے بندے توکوفہ سے آیا ہے مجھے بتامیرے باپ کاکیاحال ہے۔میرابھائی علی اکبرمجھے لینے کیوںنہیں آیا ، میرا بھائی اصغرتواب باتیںکرتاہوگا۔میری بہن بھی مجھے یادکرتی ہوگی۔کوئی پرسان حال نہیںتھا،کوئی تسلی دینے والانہیںتھا،کوئی ہمدرد، خیرخواہ اورمددگارنہیں تھا۔

Bbi Sughra

Bbi Sughra

ایک دن وہ معمول کے مطابق مدینے کے چوراہے میں بیٹھی ہرگزرنے والے سے اپنے گھروالوںکاپتہ پوچھ رہی تھی کہ ایک شترسواری اپنے اونٹ کوتیزی سے دوڑاتا ہواپاس سے گزرگیاشترسوارنے اس بچی کی آہ وفغان سنی توٹھہرگیا۔اونٹ سے اتراورپوچھابی بی توکون ہے اوریہاںکیوں بیٹھی ہے،بی بی صغریٰ نے کہاباباآج تین مہینے گزرگئے ہیں میرے گھروالے مجھے اکیلی چھوڑ کرچلے گئے ہیں،ان کے انتظارمیں بیٹھی ہوں معلوم ہوتا ہے توکوفہ سے آیا ہے،مجھے میرے باپ کاپتہ بتا ، میرے بھائی کاحال سنا۔کیاتونے ان کودیکھا ہے،شترسوارکی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے ہیں وہ حیران تھا کہ اس بچی کوکیاہوگیا ہے اوراس کوکیاجواب دوں ۔ سوارنے جواب دیابچی میںتویمن سے آیاہوں اورمجھے تیرے گھروالوںکاکوئی پتہ نہیں ہے۔ہرمسافرسے پوچھتی توکہاں سے آیا ہے کوئی نہ کہتا کہ وہ عراق سے آیا ہے کوفہ سے آیا ہے۔دن گزرتے رہے، قافلہ سالارکی گھرکے دروازے پرگزرنے والے مسافروں سے گھروالوںکاپتہ پوچھتی رہی۔اسی دوران ایک اونٹنی سوار مدینے کی پاک گلیوںسے گزرتاہواایک تنگ سی گلی میں پہنچا،اس نے دیکھاکہ ایک ٹوٹے ہوئے مکان کے دروازے میں زمین پرایک معصوم سی بچی یاحسین رضی اللہ عنہ، یاحسین رضی اللہ عنہ کے نعرے لگارہی ہے۔

اس معصوم بچی کے یہ دردنا ک نعرے سن کروہ سواراس کے پاس گیااورپوچھااے بی بی توکون ہے اور دروازے پربیٹھی کس کوپکاررہی ہے ۔سوارکے اس ہمدردانہ سوال سے امام عالی مقام کی معصوم بیٹی کوکچھ حوصلہ ہوا اور فرمایا بابا میں امام حسین علیہ السلام کی بچھڑی ہوئی بیٹی ہوں، میرانام صغریٰ ہے وہ مجھ کوتنہااوربیمارچھوڑ کرکوفہ چلے گئے ہیں۔میںبیمارہوں دوادینے والاکوئی نہیں ،دکھی ہوں تسلی دینے والاکوئی نہیں ،میرے ابا جان نے کہا تھا ایک مہینے بعدعلی اکبرتمہیں لے جائے گاتین مہینے ہوگئے ہیںان کاکوئی پیغام نہیں آیا۔یہ میرے نانے کی امت میرے سامنے گزرتی ہے ۔مجھ کوکوئی پوچھتاہی نہیں۔اے اللہ کے بندے توکوفہ جارہا ہے توخداکیلئے مجھے بھی ساتھ لے چل۔کوفے تک نہیںجاناتونہ سہی جہاںتک تولے جاسکتا ہے لے چل ۔آگے کامجھے راستہ بتادینامیں گرتی پڑتی، اٹھتی بیٹھی کوفے پہنچ جائوںگی۔اونٹنی پرنہیںبٹھاسکتا تونہ سہی اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوںسے ملنے کی خوشی میں تیری سواری کے آگے آگے دوڑتی چلی جائوںگی ۔بھوک پیاس کی شکایت نہیںکروںگی راستے میں تجھے کوئی تکلیف نہیں دوںگی،میںمفلس ہوں میرے پاس اور تو کچھ نہیں ہے۔یہ دوجوڑے کپڑے ہیں لے لو۔

تیرے بچوںکے کام آئیں گیاوراگرمیںکوفے پہنچ گئی توتجھے اوربھی بہت کچھ عطاکروںگی اورقیامت کے دن حوض کوثرسے سیراب کروںگی۔اتناکہہ کروہ بچی پھریاحسین رضی اللہ عنہ، یاحسین رضی اللہ عنہ پکارتی ہوئی بے ہوش ہوگئی۔شترسوارنے آگے ہوکراس بچی کے سر پرہاتھ رکھاتوپتہ چلابچی بخارمیںجھلس رہی ہے۔اوراتنی کمزورہے کہ اٹھ نہیں سکتی۔ شترسوارنے بیماربچی کے منہ پرپانی چھڑکا۔وہ ہوش میں آگئی توپوچھنے لگی ۔ کیا میرے اباجان آگئے ہیں،کیاعلی اکبرمجھے لینے آگیا ہے،کیامیراننھاسابھائی اصغربھی ساتھ ہے۔شترسوارنے ہاتھ جوڑ کرجواب دیابیٹی میں بھی خاندان نبوت کا گداگرہوں اوراہلبیت کے گھرانے کاخادم ہوں۔گھبرائونہیں میں تمہیں ضرورلے چلتامگریہ دیکھ لومیرے اونٹ پرکجاوہ نہیں ہے اورتم بیماراورکمزورہو۔ہاںمیں تمہاراخط تمہارے باپ تک ضرورپہنچائوں گا۔اگرچہ میرے بچے بیمارہیں اورمیںان کی دوالینے ہی مدینے آیاتھا ۔اب جب تک تمہاراخط تمہارے باپ کونہ پہنچائوں اس وقت تک بچوںکودیکھناحرام ہے۔امام عالی مقام کی لخت جگربول اٹھی باباجی خداکیلئے ایسانہ کروجائوپہلے اپنے بچوںکودواپلائوایسانہ ہوکہ ان کاصبرمجھ پرپڑے۔اس سوارنے کہا بیٹی نہیں اب یہ نہیںہوسکتا۔میںاب اپنے بچوںکی خاطرتیری اس خدمت گزاری میں دیرکرکے اللہ تعالیٰ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناراضگی اپنے سرلوں اوریہ لوکپڑے۔میں اس خدمت گزاری کاصلہ تم سے نہیں تمہارے نانے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قیامت کے دن لوں گا ۔ پھرماں باپ بہن بھائیوں سے بچھڑی ہوئی اس بچی نے ایک دردبھراخط لکھ کراس سوارکے حوالے کیا۔سوارنے اپنی سواری کامنہ کوفے کی طرف موڑااوریہ دعا کرتا ہواروانہ ہوگیا یااللہ میںمنزل مقصودتک پہنچ جائوں۔ادھرقاصدنے دعاکی ادھراللہ نے فرمایاجبریل میرے پیارے حسین کی بیٹی کاخط لے کرقاصدکربلاجارہا ہے ۔زمین کی طنابیں کھینچ لو۔ننھی سی لاش کوکربلاکی تپتی ہوئی ریت میں دفن کرنے کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خیموںکی طرف واپس آرہے تھے کہ مدینے کی طرف نگاہ اٹھائی تو دور غبار اڑتا ہوادکھائی دیا۔آپ ٹھہرگئے، غبارتیزی سے قریب آتاگیا۔پھراسی غبارسے ایک اونٹنی سوارنمودارہوا۔

Letter

Letter

اپنی اونٹنی کو بٹھایا ۔ امام عالی مقام کی خدمت میں حاضرہوا۔سرجھکایا، قدموں کوبوسہ دیاعرض کی یا امام آپ یہاں ہیں وہ سامنے لشکرکس کا ہے،ان خیموں میں کون ہے۔آپ توکوفہ گئے ہوئے تھے اورسناتھا کہ کوفے والے آپ کے ساتھ ہیں۔سیّدہ کے لخت جگرنے جواب دیا۔کوفہ والوںنے دھوکہ دیا ہے ۔وہ لشکریزیدکا ہے،ان خیموں میں ناموس رسالت چھپی ہوئی ہے۔پھرپوچھاتم کون ہو، کہاںسے آئے ہوتمہیںکس نے بھیجا ہے۔قاصدنے عرض کیا۔میںمدینے سے آیاہوں ،آپ کی بیٹی کا قاصد ہوں ۔امام عالی مقام کی آنکھوںسے آنسوئوںکی جھڑی لگ گئی ۔فرمایامیرے قریب آجائو۔تم میری بیٹی کے قاصدہو۔تم نے میرے لیے بہت تکلیف اٹھائی ،مجھ پراحسان کیا۔اس احسان کابدلہ قیامت کے دن اداکروںگا۔بتائومیری بیٹی کیسی ہے۔قاصدنے اپنی جیب سے خط نکال کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک ہاتھوںمیں دے دیا۔امام عالی مقام نے بیٹی کے خط کوسینے سے لگایاچوم کرکھولاتولکھاتھا۔

اباجان! آپ کی بچھڑی ہوئی بیٹی سلام عرض کرتی ہے،اباجان! آپ توکہہ گئے تھے کہ ایک مہینے بعد علی اکبرآئے گا تمہیں لے جائے گا تین مہینے گزرگئے ہیں اورلکھاتھا میں ساری ساری رات آپ کے انتظارمیں سوتی نہیںہوں صبح سے شام تک دروازے پربیٹھی آپ کی راہ تکتی رہتی ہوں ہرآنے جانے والے سے آپ کاپتہ پوچھتی ہوں مگرکوئی آپ کاپتہ نہیںدیتا ۔اب میںا چھی ہوںخداکیلئے اب مجھے اپنے پاس ہی لے چلو۔بھائی اکبرکوبھیجومجھے آکرلے جائے۔آپ توبچوں کے ساتھ دل بہلاتے ہوںگے مگرمیںتنہااوراکیلی اداس رہتی ہوں۔اماںجان اورپھوپھی جان بھی جاکرمجھے بھول گئی ہیں ۔بھولیںکیوںنہ۔ان کے پاس اکبر واصغرہیں ،عون ومحمدہیں وہ ان کے ساتھ اپناجی بہلاتی ہوںگی مگرمجھ دکھیاری کاکسی نے پتہ نہیںکیا۔اچھامیںآئوںگی توشکایت کروںگی۔بھائی اکبرسے کہناتم نے توکہا تھا کہ میںخودایک مہینے بعدتمہیںلے جائوںگا۔ تمہاراراستہ دیکھتے دیکھتے تین مہینے ہوگئے ہیں۔لکھا تھا اباجی میںنے بھیااصغرکیلئے کپڑے سیئے ہیں کھلونے خریدے ہیں۔جب آئوںگی تواپنے ہاتھوںسے اس کوپہنائوںگی اب تووہ چلتاہوگاباتیں بھی کرتاہوگا۔امام حسین رضی اللہ عنہ نے بیٹی کاخط پڑھا فرمایا بھائی اللہ تمہارابھلاکرے۔تیرے بچوںکی عمردرازکرے۔جس بچی کاتوخط لے کرآیا ہے وہ میری بیٹی صغریٰ ہے۔اب میں تمہاری اس خدمت گزاری اورتکلیف اٹھانے کاکیسے شکریہ اداکروں اورتمہاری کیاخدمت کروں۔گرمی کاموسم ہے تم دورسے آئے ہو۔تمہیں پیاس توضرورہوگی مگرمیںتمہیں پانی بھی نہیں پلاسکتا۔اس لئے کہ عمروبن سعدنے آج تین دن سے اہلبیت پرپانی بندکررکھا ہے۔میری یہ خواہش تھی کہ آخری وقت اپنی بیماربیٹی کودیکھ لوں۔اے خداکے بندے تونے مجھ پر بڑااحسان کیاہے میری بیٹی کاخط لے کراس خونی میدان میںآگیا ہے آج تونہیںکل اس احسان کابدلہ حوض کوثرکے جام پلاکرادا کروںگا ۔ اور اب ایک نیکی اور بھی کروکہ میراپیغام بھی میری بچی تک پہنچادو۔

جوکچھ تم نے دیکھا ہے اس کوجاکربتادو ۔ کہناکہ عون محمدنانے مصطفی کے دین پرقربان ہوچکے ہیں،قاسم، عباس رضی اللہ عنہما دفن ہوچکے ہیں،علی اکبر ،علی اصغرشہیدہوچکے ہیں۔جن کوتویادکرتی ہے وہ سب نانے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین پر قربان ہوچکے ہیں اورتیراباپ حسین رضی اللہ عنہ بھی چندساعتوںکامہمان ہے۔ یہ گواہی دینا کہ تمہارے باپ نے تمہارے خط کوپہلے سینے سے لگایاپھرچوم کرکھولاتھا۔ پھرفرمایااے میری بیٹی کے قاصد اب تویہاں سے جلدی سے نکل جا۔کہیںایسانہ ہوکہ دشمن تجھے بھی قتل کردیں۔بیٹی کے قاصدکوروانہ کرنے کے بعد امام عالی مقام رضی اللہ عنہ علی اکبر شہید کے پاس گئے اسے بہن کاخط سنایا ۔پھربیٹی کاخط لے کرخیموںمیں تشریف لے گئے تمام کوپڑھ کرسنایا ہرایک نے اپنی بچھڑی ہوئی صغریٰ کے خط کوسینے سے لگایا اور چوما۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com