،سورة البقرہ کے شروع میں اللہ تعالی فرماتا ہے ”اس کتاب میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ”اسی طرح رب کائنات کا قرآن مجید فرقان حمید کی سورة العصرآیت نمبر دومیں فرمان مبارک ہے ” بے شک انسان گھاٹے میں ہے ،اللہ عزوجل نے انسان کوپیدا کیا اور اس کی ضروریات کھانے پینے اورلباس وغیرہ کا انتظام بھی فرمایا ،مگر انسان کتنا ناشکرا ہے جو دولت ،شہرت اور جھوٹی شان و شوکت کی لالچ میں یہ بھول گیا ہے کہ میں کیا ہو ں ارے انسان تو ایک مٹی کا پتلا ہے اور نہ جانے کب موت کا بھلاوہ آجانا ہے ہمیں تو ایک پل کا بھی پتا نہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ دوسرا سانس لینا ہے یا نہیں لینا تو پھر ہمیں کس بات کا گھمنڈ ہے ہم کیوں جھوٹی شان و شوکت ،دولت ،شہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ”اگر ہم موجودہ دور کا بغور مشاہدہ کریں تو یہ حیققت کھل کر سامنے آتی ہے دنیا میں بہت سے لوگ مفاد پرست، دولت و شہرت کے پجاری ، جھوٹھی شان و شوکت کے لالچ اوردنیاوی زندگی کی بھاگ دوڑ میں اپنے رشتوں کو بھی بھول چکے ہیں یہ توبیٹی جیسے عظیم رشتے سے بھی نا واقف ہیں دانش وار لوگ کہتے ہیں کہ بیٹیا ںسب کی ساجی ہوتی ہیں مگردولت و شہرت کے پجاری لوگوں کی انکھوں پہ تو لالچ کی پٹی باندی ہوئی ہے۔
اس ظالم سماج میں کسی کی بیٹی کو اپنی بہوں بنانے کیلئے جہیز مانگا جاتا ہے ،کسی کی بیٹی کو اپنی بہوں بنانے کیلئے ڈیماڈ کی جاتی ہے کہ شادی کے دن فلاں طرح کا شادی حال ہونا چاہیے ،فلاںطرح کے کھانے ہونے چاہیے اگر اس طر نہ ہوا تو ہماری برادری میں ناک کٹ جائے گی عجیب و غریب طرح کی شرائط عائد کی جاتی ہیں اور پھر فلاں دن فلاں مہینے میں شادی کرنی ہے ،ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جس کی بیٹی ہے وہ اتنا بوجھ اٹھا بھی سکتا ہے کہ نہیں اگر ایسے ظالم و بے حس لوگوں کی شرائط نا مانی جائے تو کہی بیٹی کا رشتہ ٹھکر ا دیا جاتا ہے تو کہی رشتہ توڑ دیا ہے ، ایسے لوگوں کو خدا یاد نہیںان کو یہ بھی یاد نہیں کہ ایک دن موت آنی ہے اور سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر اللہ پاک کے حضور پیش ہونا ہے اور دنیا میں جو کچھ کیا اس کا حساب دینا ہے ارے بیٹی تو وہ عظیم ہستی ہے جس کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو جا کر کہتے ہیں کہ ”اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو”۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں ”یہ کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے، جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا، قیامت تک خدا کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔” (طبرانی)،ایک حدیث پا ک میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں۔
اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا ، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ۖتشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا،تو آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔
جن بیٹیوں کو ہمارے اسلام نے اللہ کی خاص رحمت قرار دیا ہے ہمارے ظالم معاشرے میںانہی بیٹیوں کو کہی حوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہی جہیز کی تکڑی میں تلوایاں جارہا ہے یہ ہمارے معاشرے ہمارے سماج کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے اب حالات کا مشاہدہ یہ بتاتاہے کہ ہم نے سب سے پہلے اجتماعی طور پرانسانیت کا قتل عام کیا پھرشاید اسے دفنانا بھول گئے؛اسی لیے آج انسانیت ایک لاوارث لاش کی شکل میں بدروح بن کر چہار وجانب گھومتی دکھائی دے رہی ہے ا ور درندہ صفت لوگ اپنے چہروں پر انسانیت کا غازہ مل کرمعصوموں کو درندگی ،بے حسی کا نشانہ بناتے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں ضرہ غور کروں ہمارے اسلام میں بیٹیا ں اللہ پاک کی رحمت ہیں ان کو دولت و ہوس کا نشانہ نا بنائو اور نا بننے دو ، بیٹی کے سلسلے میں ایک بہت نازک ذمہ داری اور انتہائی اہم حق یہ ہے کہ آپ اچھی جگہ اْس کا رشتہ کریں۔ اور کبھی بھی کسی دبائو، لالچ، جہالت اور ناعاقبت اندیشی سے بچی کی زندگی تباہ نہ کریں،اور بیٹی کا رشتہ کرتے وقت سوچ سمجھ اور دیکھ بھال کے کروں ایسے لوگو ں کے ہاتھ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ مت دو جو دولت کے پجاری ہوں جن کو جہیز جیسی لعنت کی لالچ ہو، جن کی شکل مومناں ،کرتوت منافقاں اور دل کافراں ہوں ایسے لوگوں سے بچنا ں وقت کہ اہم ضرورت ہے کیونکہ بیٹی کی زندگی کا سوال ہے، آئو سب مل دعا کریں کہ اللہ پاک سب کی بیٹیوںکے نصیب اچھے کرے۔