تحریر: شاہ بانو میر آپ سب بہنوں بیٹیوں کو دیکھ کر اطمینان نصیب ہوا ہے کہ اردو زبان کیلئے ابھی کام ختم نہیں ہوا آپ جیسی خواتین جب اپنے دین کے تحفظ اور ملک کے دوام کیلئے میدان عمل میں موجود ہیں تو پھر ادبی کام کوکوئی زوال نہیں اپنے بڑے مقصد کو نگاہ میں رکھیں وہ یہ سوچیں کہ انہیں تعمیر معاشرت کرنی ہے . اور حوصلہ نہیں چھوڑنا . تاریخ گواہ ہے کہ میر انیس جیسا شاعر بھاوج کے جزبات کو ایک مصرعے کے بعد بیان کرنے سے قاصر ہو گیا اور جب بیٹی سے اپنی ذہنی کشمکش کا ذکر کیا تو اس نے فورا ہی دوسرا لطیف پیرائے میں مصرعہ بیان کر کے ان کی مشکل کو حل کر دیا .
ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا کہ عورت کے حساس جزبات انتہائی نازک احساسات اور شیشے سے بھی شفاف ذہن کو کوئی مرد نہیں پڑھ سکتا نا بیان کر سکتا ہے یہ جو آپ شاعری پڑہتے ہیں اور مزاکرے سنتے ہیں حقوق نسواں پر مرد کیا جانتا ہے؟ یہ محض مرد کا رچایا ہوا ڈرامہ ہے میری مخلافت اسی لئے کی جاتی ہے کہ میں سچ بولتا ہوں میں بتاتا ہوں کہ مرد مخلص نہیں ہے صرف اپنی دوکانداری چمکانے کیلئے تا کہ عورتوں کو اچھے انداز میں ساتھ ملا کر مزید کامیابی حاصل کرے .
میں اٹھارہ سالوں سے اس دشت کی سیاحی میں ہوں کیا امریکہ کیا کینیڈا کیا یورپ میں ہر جگہہ گیا ہوں اور دوسری بات مجھے بیجاہ تعریف کرنے کی عادت نہیں ہے آپ لوگوں کو ایک گلدستے کی مانند دیکھ رہا ہوں جس میں ہر طرح کا رنگ موجود ہے اس سے پہلے ایسا مظاہرہ نہیں دیکھا خواتین کا . موجودہ دور میں پوری دنیا کو گلوبل ویلج کہہ کر دراصل ایسا معاشرہ رواج پا رہا ہے جو ایک جیس کیفیات کا حامل ہے . عہد جدید میں بھی عورت یورپ کی ہو یا ایشیا کی گرداب میں الجھی ہوئی ہے .
Society
کامیاب عورت کی بد نصیبی ہے کہ جیسے ہی اس کی قابلیت کہیں بھی سامنے آتی ہے معاشرے میں موجود وہ مرد جو اجارہ داری کی سوچ لے کر گروپس کو تشکیل دیتے ہیں . ان میں سے ایک گروپ اس عورت کی حمایت کر دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے خلاف باقی گروپس ہوجاتے ہیں . عورت کو شدید دباو میں مبتلا کر کے انہیں بسا اوقات اتنا گھبراہٹ میں بتلا کر دیا جاتا ہے کہ اگر تاریخ کو دیکھیں تو کئی کامیاب عورتیں موت کے منہ میں چلی گئیں . مرد ہمیسہ سے عورت کو اپنی سیاست کا شکار بنا کر اس کو پریشان کرتا ہے . ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو میری اپنی ماوں بہنوں بیٹیوں سے گزارش ہے کہ حوصلہ ہمت سے کام لیں . مایوسی کی بجائے اللہ سے مدد لیں .
آپ لوگ اپنی کاوشیں جاری رکھیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں . اگر آپ کی مخالفت کی جائے تو خوش ہوں پریشان نہ ہوں کیونکہ مخالفت اسی کی کی جاتی ہے جس کا کام راستے میں حائل دکھائی دے اللہ پاک نے آپ کو امتیازی وصف دیا ہے وہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ سب کے شستہ لہجے ذہین دماغ متحرک ذہن اور اس کے ساتھ ساتھ بشمول آپ کے یہ سارا ہال گواہی دے رہا ہے کہ دیار غیر میں رہ کر بھی آپ نے اپنی دینی شناخت برقرار رکھی جو بہت بڑی بات ہے
آپ سب نے پاکستانیت قائم رکھی ماحول ویسا ہی رکھا جیسا دیس میں تھا یہ قابل تحسین بات ہے . اپنی نسلوں کی ذمہ دار محافظ عورت ہے اور آپ سب مجھے وہ دکھائی دے رہی ہیں جو نسلوں کیلئے سوچتی ہیں اور اسی بات کی اسی سوچ کی اسی محنت کی ان ممالک میں ضرورت ہے . آپ سب سے رابطہ رہے گا ڈاکٹر تقی عابدی صاحب کے طویل لیکچر کی کئی اقساط ہیں یہ سلسلہ جاری ہے