تحریر : راجہ وحید احمد میں جب برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاجی بینرز آویزاں دیکھتا ہوں تو مجھ کو خوشی ہوتی ہے کہ ہم اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا غم محسوس کرتے ہیںمیں جب افغانستان پر ہونے والے امریکن حملے کے خلاف احتجاجی ریلیاں دیکھتا ہوں تو مجھ کو خوشی ہوتی ہے کہ مسلمان ممالک پر ہونے والے مظالم پر ہم کو دکھ محسوس ہوتا ہے جب وزیر اعظم پاکستان ملالہ یوسفزئی سے ملاقات کرتے ہے یا آصفہ بھٹوجب ملالہ یوسفزئی کی تعریف کرتی ہے تو مجھ کو خوشی ہوتی ہے کیوں کہ ملالہ یوسفز ئی اس ملک کی بیٹی ہے اور میں فخر محسوس کرتا ہوںکہ اپنی بیٹیوں کو عزت دینا ہم کو آتا ہے۔
جب ہمارئے لوگ اور ہمارئے سیاستدان شرمین عبید چنائے کو ایمی ایوارڈ یا اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر تالیاں بجاتے ہیں تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں تو مجھ کو خوشی ہوتی ہے کیوں کہ شرمین عبید چنائے بھی پاکستان کی بیٹی ہے لیکن مجھ کوافسوس ہوا جب 23 ستمبر خاموشی سے گزر گیانہ مال روڈلاہور پر کوئی بینرز آویزاں ہوا ،نہ کوئی احتجاجی ریلی منعقد ہوئی ،نہ ہی لبرٹی مارکیٹ کے گول چکر پر کسی این جی او نے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں قید لڑکی کے لیے احتجاج کیا،نہ وزیراعظم پاکستان نے اُس کے حق میں بیان دیا، نہ کوئی وزیر یا گورنر سندھ اُن کے گھر دلاسہ دینے گیا،نہ ہی میڈیا نے اس مظلوم لڑکی کے حق میں کوئی پروگرام نشر کیاہم دنیا جہاں کا دکھ بانٹنے کو تیار ہیں لیکن اُن کا نہیں جوچودہ سالوں سے بے گناہ سُولی پر لٹک رہے ہیں جی میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جن کو 23ستمبر2010 تاریخ کاسیاہ ترین دن جب موجودہ اقوام عالم میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ کہنے والے ملک کے ایک متعصب جحج رچرڈ برمن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 برس کی سزا سنائی وہ بھی ایک انتہائی بے معنی الزام میں کہ ڈاکڑ عافیہ صدیقی نے چھ امریکی فوجیوں کا قتل کرنے کاارادہ کیاگولیاں چلائی لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی واصل جہنم نہیں ہوا اس طرح کے غیرمنصفانہ اور ظالمانہ فیصلے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی دکھ ،درد، مصیبت،کرب، پریشانی،افسوس،ظلم،زیادتی،تعصب،بد نصیبی ،قیدوبند اورتشدد یہ الفاظ ہیں لیکن اگر آپ ان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک بار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رواداد پڑھیں ہمت ،حوصلہ، توکل،جستجو،جدوجہد،صبر، آس، امید،قربانی،،عزم ،استقامت، کاوش،لگن اور محبت اگر آپ ان الفاظ کے ساتھ آشنا ہونا چاہتے ہیں تو ایک دفعہ آپ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ضرور ملیں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ہے1990 میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہوسٹن یونیورسٹی امریکہ میں داخلہ ہواامریکہ میں دوران تعلیم اُن کو مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا1995میں اُنھوں نے امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر امجد خان سے شادی کی جہاں سے اُن کی بد نصیبی کا ایک نہ رُکنے والا سفر شروع ہوا2000میں اُن کے ازواجی حالات انتہائی کشیدہ تھے جس کی وجہ سے 2001میںوہ اپنے بچوں کے ساتھ کراچی اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوں گئی اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے جنوری 2002میں اپنے خاوند کے ساتھ صلح کر کے دوبارہ امریکہ چلی گئی لیکن ڈاکٹر امجد خان اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے درمیان خلیج ختم نہ ہو سکی جس کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی جون 2002میں واپس کراچی آ گئی۔
ذرائع کے مطابق ڈاکٹر امجد خان ایف بی آئی کا ایجنٹ تھا جب پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کی گردان کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو بہت سے بے گناہ پاکستانیوں کو پیسے لے کر امریکہ کے حوالے کیا گیا جس کا اعتراف خود کمانڈو صدر پاکستان جنر ل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں کیا ہے ؛میں نے اپنے بندئے پکڑ پکڑکر امریکہ کو بیچے جس کا ہمیں معقول معاوضہ ملا؛ بردہ فروشی کے اس کاروبار میں دختر وطن ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی بیچ دی گئی جن کو مارچ 2003میں اُن کے تین معصوم بچوں سمیت کراچی سے اغوا کر لیا گیاپانچ سال ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اُن کے بچوں کا اُن کے گھر والوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں2008میں انکشاف ہو ا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی افغانستان کے شہر بگرام میں قیدو بند کے مصائب براداشت کر رہی ہیںڈاکٹر عافیہ صدیقی کا سب سے بڑا قصورقرآن پاک سے لگائو،بلا تفریق انسانیت کا جذبہ اور مسلمان ہونا ٹھہراپھر اُن کو ایک نام نہاد مقدمے کے ٹرائل کے لیے امریکہ منتقل کیا گیا اور چھیاسی برس کی سزا سنا دی گئی حدیث مبارکہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حکومت و قیادت حاصل کر کے اپنی رعیت پر حکمرانی کرئے اور پھر اسی حالت میں مر جائے کہ وہ اپنی رعیت پر ظلم کرتا اور ان کے حقوق میں خیانت کرتا تھا تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کر دئے گا(صیح بخاری ومسلم)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تین دعاوں کے قبول ہونے میں شک نہیں، والد کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا(سنن ابو داود)نجیب احمد (مرحوم) سابق چیف رپورٹر روزنامہ جنگ کا ایک بیان اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا میں کس کا کیا کردار تھا،،ڈاکٹر عافیہ کو ملٹری کے اہلکاروں نے اُن کے گھر کے قریب سے اغوا کیا اور اُنہیں کراچی میں کینٹ کے علاقے میں رکھا گیابعد میں اُنہیں بگرام شفٹ کر دیا گیامیرئے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں اور میں اُن اہلکاروں کو جانتا ہوں،۔
جنرل پرویز مشرف کی باعزت (اُن کی نظر میں) بیرون ملک روانگی کے بعدپاکستان میں پہلی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی اور دوسری مسلم لیگ (ن) کی بنی پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جناب رحمن ملک کی کاوشوں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے دو بچے بازیاب ہوئے جو اب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے پاس ہیں لیکن سب سے چھوٹا سلیمان تا حال لاپتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا کردار ادا کیااس کا اندازہ آپ ان دو بیانات سے لگا لیں ۔طلحہ محمود ممبر سینٹ،،حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کو واپس لانے میں مخلص نہیںہے ڈاکٹر عافیہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں وزارت خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا ہے،،مریم ایووان ریڈلے برطانوی صحافی،، حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے لیے امریکی حکومت سے مطالبہ نہیں کیا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حسین حقانی پاکستانی قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ سب سے بہترین موقع پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اُس وقت آیا جب ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیا گیا اُس وقت ہم ریمنڈ ڈیوس کے بدلے عصمت صدیقی کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے تھے لیکن یہ دکھ عصمت صدیقی کا ہے ہمارا تو نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد میاں محمد نواز شریف نے اپنی حکومت بنائی اور کراچی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر گئے اور اُن کی والدہ عصمت صدیقی سے وعدہ کیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروائے گے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو جائے لیکن میں میاں صاحب کو صرف دو واقعات یاد کروانا چاہتا ہوں ایک صرف چند دن پہلے کی بات ہے جب میاں صاحب آپ کی بیٹی کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا تو اُپ کے لہجے میں ایک درد تھا او ر آپ فرما رہے تھے کہ میری بیٹی پر کیچر اچھالا جا رہا ہے میاں صاحب جے آئی ٹی میں نہ تو مریم نواز کو بے عزت کیا گیا، نہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا،نہ اُن کی بے حرمتی کی گئی پھر بھی اتنا کرب کاش اتنا ہی درد آپ کو عافیہ صدیقی کا ہوتا کیوں کہ وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے اور بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔
دوسرا میاں صاحب جب آپ جلاوطن تھے تو ایک دفعہ مجھ کو بیگم کلثوم نواز سے ملنے کا موقع ملااُس وقت جو بے بسی اورنمی اُن کی آنکھوں میں تھی آج وہ ہی بے بسی اور نمی میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں جب میں اُن کے سامنے بیٹھا ہوں کاش آپ بھی اس درد کو محسوس کر سکتے اب تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے کو زندہ رکھنے میں سب سے اہم کردار اُن کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا ہے جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے وہ اپنی جاب کے ساتھ ساتھ جس طرح ایک مسلسل جدوجہد کر رہی ہے انشااللہ وہ ضرور کامیاب ہو گی سیاسی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی اور کالم نگاروں میں سے فاروق چوہان صاحب جس طرح ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا ساتھ دے رہیں ہیں کاش پی ٹی آئی اور دیگر لکھنے والے بھی ان کے نقش قدم پر چلیں اور ایک چھوٹی سی خواہش ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے مطابق جس طرح جنرل احمد شجاع پاشا کا اُن کی ر ہائی میں کردار ہے کاش اگر ہماری آنے والے نسلیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارئے میں پڑھیں تو اُس میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی کردار جنرل احمد شجاع پاشا سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہو میں اور آپ کیا کر سکتے ہیںزیادہ نہیں بس ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک کام تو کر سکتے ہیں اپنے گھر کے باہر ، اپنی گاڑی کی سکرین پرصرف ایک فقرہ ،،ہماری عافیہ ،، تو لکھ سکتے ہیںایک شعر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی امید کے نام
روشنی کو قید کس نے کیا دیوارزنداں میں کبھی بھی بند کوزئے میں سمندر ہو نہیں سکتا