تحریر : طیبہ اسلم شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر دروازہ نہیں کھولیں گے چاہے کوئی بھی آ جائے. ابھی دروازہ بند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچے تاکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعا دے سکیں، دستک ہوئی بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں. دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا باوجود اس کے کہ دلہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا اس نے اپنے فیصلے کو مدنظر رکھا اور دروازہ نہیں کھولا. والدین ناکام واپس لوٹ گئے. ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کے والدین بھی دلہے کے گھر جا پہنچے تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعا دے سکیں. ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی اور بتایا گیا کہ دلہن کے والدین کمرے کے باہر موجود ہیں. دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا۔
باوجود اس کے کہ فیصلہ ہو چکا تھا دلہن کی آنسوؤں بھری سرگوشی سنائی دی نہیں میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی اور فورا دروازہ کھول دیا. شوہر نے یہ سب دیکھا مگر دلہن کو کچھ نا کہا خاموش رہا. اس بات کو برسوں بیت گئے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے اور پانچویں بار ایک بیٹی پیدا ہوئی. شوہر نے ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا جسے وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں. اس رات بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلے چاروں بچوں کی پیدائش پر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا. شوہر مسکرایا اور بولا یہ وہ ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کو پال پوس کر بڑا کیا اور ان کو اچھے طریقے سے رخصت کیا تو وہ روزِ قیامت میرے ساتھ ایسے کھڑا ہو گا جیسے شہادت اور اس کے ساتھ کی انگلیاں ایک ساتھ ہوتی ہیں. اس ارشاد مبارک کی روشنی میں ہم عورت کے اس روپ کی اہمیت کو اچھے طریقے سے پہنچان سکتے ہیں . مگر آج کے زمانے میں بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر اپنے والدین کا سہارا بنی ہوئی ہیں. ہر میدان میں کامیاب ہو کر اپنے والدین کا نام روشن کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں. ہم مسلمان ہیں ہمارے مذہب نے جس قدر عزت بیٹیوں کو دی ہے اس کی نظیر کسی اور مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
Hazrat Mohammad PBUH
ہم سب سے پہلے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں سے اپنے لئے نمونہ تلاش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادیوں سے کا قدر محب فرمایا کرتے تھے. خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عزت دینے کے لئے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور ان کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دیا کرتے تھے. ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے بس ان پر عمل کرنے کی دیر ہے.بیٹیاں اللہ کی بہت بڑی رحمت ہیں بس قدر کرنے کی ضرورت باقی ہے.بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا.متوسط طبقے سے لے کر اعلی طبقے تک یہی سوچ دیکھنے میں آتی ہے. بیٹے کی پیدائش پر گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر میں میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
شادیانے بجا کر سب کو اکھٹا کیا جاتا ہے ان کے عقیقے پورے جوش و خروش کے ساتھ کئے جاتے ہیں ،سلا مشورے کے بعد ایک اچھا سا نام رکھا جاتا ہے. مگر بیٹی کی پیدائش پر ایسے خاموشی اختیار کی جاتی ہے جیسے خدا نخواستہ گھر میں کوئی ماتم کیا جا رہا ہے ان کا نہ عقیقہ کیا جاتا ہے نہ میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں بلکہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح یہ خبر دب جائے اور لوگ ہمارے گھروں کا رخ نہ کریں۔
یہ بدسلوکیاں تو اپنی جگہ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر کسی خاتون کے ہاں لگاتار دو تین بیٹیوں کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کو سسرال والے اور لوگ طعنے دے دے کر یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے بیٹیوں کو پیدا کر کے بہت بڑا گناہ کر دیا ہے یہ بات ایسے ختم نہیں ہوتی یا تو بات طلاق تک جا پہنچتی ہے یا دوسری شادی تک……بیٹوں کو اعلی تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر ایک اور امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
Girls In School
ان کے روشن مستقبل کے خواب سجانے سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ بیٹوں کو اعلی نہیں تو کسی سرکاری اسکول میں ہی داخل کروا دیں مگر بیٹیوں پر ایک رقپیہ خرچ کرنے کو بھی پیسوں کا ضیاع سمجھا جاتا ہے اور اس کی بابت یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو پرایا مال ہیں آج نہیں تو کل اپنے گھر چلی جائیں گی ان کا کام یہ ہے کہ گھرداری سیکھیں اور سلیقہ شعاری کی مشق کیا کریں جو ساری زندگی انہوں نے کرنا ہے.ایسا نہ ہو ہو کل کو جس کے گھر جائیں وہ کہے بیٹی کو کوئی کام بھی نہیں سیکھا یا. تعلیم حاصل کرنے کا حق تو چھین ہی لیا جاتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ ستم پہ ستم یہ کہ ان کو وراثت میں سے بھی جائز اور قانونی حق نہیں دیا جاتا یہ کہہ کر ان کو انکار کر دیا جاتا ہے کہ ہماری نسل ہمارے بیٹوں سے چلے گی ہماری جائیداد اور پیسے پر ہمارے وارثوں کا حق بنتا ہے.یہ کل کو دوسرے گھروں میں جائیں گی تو اپنے شوہروں کے مال و متا کی مالک بن جائیں گی. آخر ہم کیوں اسلامی تعلیمات کو بھول چکے ہیں ؟؟؟ جو اپنی بیٹیوں کی پرورش کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں ان کے لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی ہے.پھر ہم کیوں دنیا کی چار دن کی خوشی اور عیش کے لئے ان کے حق کو غصب کرتے ہیں۔
ALLAH
اللہ نے بچوں کو ایک فطرت پہ پیدا کیا ہوتا ہے پھر ہم کون ہوتے ہیں جو بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق کر کے اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں …………اللہ ہمیں بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ برابری و مساوات کا سلوک روا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں ،زحمت نہیں اور روزِ قیامت ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔