تحریر: ڈاکٹر خالد فؤاد الازہری گذشتہ مضمون”طلاق کی کثرت کیوں”کے جواب میں متعدد رسائل وخطوط ملے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موضوع معاشرے میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے کسی بھی لمحہ تغافل نہیں برتا جا سکتا۔ اس طرح کے حالات و واقعات کو پڑھ اور سن کر انسان کی آنکھیں خود بخود ٹمٹمانے لگتی ہیں۔ اسی سلسلہ کا ایک واقعہ آج کی تحریر میں درج کیا جارہاہے ۔جیساکہ ہم جانتے ہیں پاکستانی سماج کے بہت سے افراد مغربی ممالک لندن، کینڈا اور امریکہ وغیرہ میںرہتے ہیں اور وہاں سکونت کے سبب پاکستانی خاندانوں کے طور طریقوں میں غیر معمولی تغیر کا ظاہر ہو جانا لازمی امر ہے ،چونکہ مغرب کی تہذیب و ثقافت میں رہائش پذیر فرد کے اخلاق و سیرت میں زمین و آسمان کے مابین جیسا خلاء پیدا ہو جانا کوئی باعث حیرت امر نہیں ہے خاص طور پر جب انگریزی زبان کو باانداز مغرب مسلم سماج اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں تو یہ ہونا بدیہی امر ہے۔
اسی طرح کی صورتحال سے ایک لڑکی بھی دوچار ہوئی جس کے والد نے اس کی شادی ایک ایسے لڑکے سے طے کردی جو لندن میں رہائش پذیر تھا اور اس امر کا اظہار اس نے بیٹی سے کیا جواب میں بچی راضی نہ ہوئی تو والد ماجد نے جبر و سطوت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی بیٹی پر واضح کردیا کہ اس کی شادی اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں ہوسکتی تو لہٰذا کھلی بات ہے کہ تم اس سے شادی کرلو۔شادی ہوجانے کے بعد دونوں میاں بیوی لندن منتقل ہوگئے جہاں پہنچتے ہی لڑکی نے ایک نئی زندگی کو چشم بصیرت سے دیکھا تو وہ متحیر ہوئی کہ اس کی سابقہ زندگی اور اس نئی زندگی میں کھلا تضاد ہے ،اور اس لڑکی کواس معاشرے میں اجنبیت کا احساس ہوتا تھا کیونکہ اس کا خاوند اپنا زیادہ وقت باہر گذارتا تھا ، جس کے باعث لڑکی کی حیات قعر جہنم کی مثل بن چکی تھی۔
Islam
خاوند ہمیشہ اہلیہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا کیوں کہ اس پر مغرب افکار اور مغربی تہذیب اس قدر اثر انداز ہوچکی تھی کہ وہ اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے آخری حد تک کی نفرت کرتا تھا اور وہ یہ کہتا تھا کہ اسلام اور اسلامی ثقافت و زمانہ قدیم کی یادیں ہیں اور ان کا موجودہ دور میں چلنا ممکن نہیں۔ اسی بے راہ روی کے سبب وہ جب بیوی کو دیکھتا تو اس کو کوستا اور اس پر تشدد کا رویہ اختیار کرتا کہ وہ کیوں مغربی معاشرے و سماج میں ضم نہیں ہورہی بلکہ و شب و روز کی صلوت کی پابندی کرتی ہے اور تلاوت قرآن کو اپنا معمول بناتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ تھا کہ لڑکا بذات خود شراب نوشی و آوارہ گردی کی زندگی میں لت پت تھا مگر بیوی پر ظلم و جبر کے ذریعہ یہ لازم کرنا چاہتاتھا کہ وہ اسلام تہذیب و تمدن سے تہی دامن ہوکر اس مغر بی حیات جو بے شرمی و بے حیائی اور اخلاقی و انسانی اقدار سے اپنا دامن ختم کرچکی ہے اس کو اختیار کرے ۔لڑکی اس امر پر کسی طور پر آمادہ نہ ہوئی تو اس کا سلسلہ تشدد اس پر دراز ہوا اور نتیجتا لڑکی نے خط وکتابت اور ای میل کے ذریعہ اہل خانہ کو مطلع کیاکہ وہ کس قدر اذیت سے دوچار ہے۔ جس پر اس کی والدہ اور اس کی بہن نے پریشان و بے چین ہوکر ابا جان کو مطلع کرنے کا فیصلہ کیا ،جب اس کے والد کو بتایا گیا کہ وہ بچی کی حالت زار کی درستگی کے لئے اس کے شوہر سے بات کرے تو اس نے سختی کے ساتھ بیوی و بیٹی کو منع کیا کہ وہ کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھیں کیوں کہ اب وہ اپنا گھر سدھار چکی ہے اور اپنی حیات خوش و خرم بسر کررہی ہے ہمیں ان دونوں کی زندگی میںمداخلت کا کوئی حق نہیں۔
اس مضطرب و بے چین زندگی میں لڑکی کی دو بچیاں پیدا ہوئیں اور اس کے شوہر کی بے رخی و ترش زبانی کے نشتر مسلسل اس پر برس رہے تھے ،طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ ان دونوں کے مابین فکری و اخلاقی اور ثقافتی ہم آہنگی پیدانہ ہو سکی تھی ۔بلآخر خاوند اس کو بتائے بغیر بھاگ گیا وہ اس کا انتظار کرتی رہی کہ وہ گھر آجائے مگر جب کچھ نہ بن پایات اس کے دفتر میں گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو یہ شہر چھوڑ کر چلاگیا ہے۔ جس کہ نتیجہ میں بچی کی حیات تکلیف و آلام سے دوچار ہوگئی اور لندن میں اس کے جاننے والوں نے اس کی اس قدر کمزور حالت اور دربدری کو دیکھتے ہوئے اسے مشورہ دیا کہ وہ کسی مسیحی سے شادی کرلے مگر اس بچی نے اپنے ایمان و اسلام کی حفاظت کرنے کا تہیہ کررکھا تھا اس لئے اس نے ان کی آرء ا پر عامل ہونے سے معذرت کرلی۔
Children
اس کے بعد بعض افراد نے اس کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے اسے لندن چھوڑ کر واپس جانے کا مشورہ دیا اور انہوں نے اس کے سفری اخراجات کے لئے باہم چندہ کرکے ٹکٹوں کا انتظام کیا جس کے بعد وہچھ ماہ کے انتظار کے بعد لندن چھوڑ کر واپس پاکستان آگئی ۔اپنے والد کے گھر آئی تو اس کو معلوم ہواکہ اس کی والدہ دنیا سے پردہ فرماگئی ہیں اور اس کے ابا نے دوسری شادی کرلی اور گھر میں داخل ہوئی اپنا تعارف کروایا تو اس کی سوتیلی ماں نے کہا کہ یہ اب میرا گھر ہے اور تمہارے دو بچے بھی ہیں ہم آپ کے خرچہ کو نہیں اٹھا سکتے اور تم لوگوں کا اب اس گھر پر کوئی حق نہیں یہاں رہنے کی آپ کو میں اجازت نہیں دے سکتی۔ ان باتوں کو سن کر اس کا والد ناصرف خاموش رہابلکہ الٹا اس نے بیٹی کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا کہ یہ نااہل ہے اپنے خاوند کو خوش نہ رکھ سکی جس کے سبب وہ اسے چھوڑ گیا ۔وہ لڑکی اپنے ابا کے گھر سے نکل کر رخصت ہوئی اور مختلف گھروں میں کام کرکے اپنی بچیوں کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظا م کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس واقعہ کا بدترین و ذلت آمیز انجام کو بیان کرنے سے قبل ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا اسلام نے معاشرے کے سبھی افراد کے حقوق متعین کردئیے ہیں اس میں ایسا نہیں ہے کہ کوئی باپ ظالم و قاہر بن کراپنے حقوق کی بجاآوری اور ان کے تکمیل کا مطالبہ اپنی اولاد سے کرے جبکہ دوسری طرف ان بچوں اور بچیوں کے سلسلہ میں جو اس پر فرائض مقرر کئے گئے ان سے تغافل و تساہل سے کام لے بلکہ معاملہ اس حدتک پہنچ جائے کہ ان کی مرضی و خوشی کو بازور قوت و طاقت سلب کرلیا جائے اور ان کا نکاح بلارضامندی کے طے کردے ۔۔۔۔آج کل کے مسلم معاشرے میں بہت سی خرابیوں و بیماریوں کا ارتکاب والدین کررہے ہیں جن کی اسلام قطعا اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔آخر میں ہم ایک سوال پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں کہ کیا کوئی فرق ہے اس امر میں کہ زمانہ جاہلیت اور قبل از اسلام بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتاتھا اور اسلام نے آکر عورت کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اسے ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کا مرتبہ عطاکرتے ہوئے اس کے حقوق کو لازم ٹھہرایاجبکہ آج اسلامی ممالک و مسلمان ہی اپنی بچیوں کو جوانی میں جیتے جی قتل کررہے ہیں۔۔۔۔۔؟کیا اس اجتماعی و موروثی ظلم و زیادتی اور قہر و جبر کا ذمہ دار اسلام ہے ؟؟؟