تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال ”اور جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی ہوئی تو غم اور پریشانی کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے سورة النحل مفہوم آیت 58۔ہمارے ہاں بھی دور جہالت کی طرح یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔
عام طور پر بیٹا ہونے پر خوشی منائی جاتی اور بیٹی پر منہ بنایا جاتا ہے۔بیٹی پیداہونے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں ،لڑکی کو مصیبت و ذلت سمجھاجاتا ہے ۔اوپر درج آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کفار کا طرز عمل ہے ،مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ بیٹی کی پیدائش پر منہ بنائے ۔زمانہ قدیم ،زمانہ جہالت،میں اور اب موجودہ عہد میں بھی بیٹیوں کی بجائے بیٹوں کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اس ترجیح کی کچھ معاشی، سماجی اور نفسیاتی بنیادیں ہیں۔معاشی اس طرح کہ سمجھا جاتا ہے کہ بیٹا کمائے گا ،والدین کو سکھ دے گا ،سماجی یہ کہ جس کے زیادہ بیٹے ہوں ان کو تحفظ ملتے ہے ،یعنی بیٹا احساس تحفظ فراہم کرتا ہے۔
نفسیاتی وجہ بیٹیوں کی عفت ہے ،اگر بیٹی کی وجہ سے عزت پر حرف آجائے تو ماں باپ معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے ۔ بیٹی کا تحفظ (عفت کی حفاظت) اور اسکی دیگر ذمہ داریاں زیادہ ہیں، اسی وجہ سے لوگ مرد کو برتر اور عورت کو کمتر مخلوق سمجھتے ہیں ۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیٹے کی عزت نہیں ہوتی اسے صحبت بد سے بچانے کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔”بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں” یہ کہاوت اب صرف کتابوں میں ہے، حقیقت میں ایسا نہیں رہا بیٹی کے عدم تحفظ کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے گھراپنے رشتہ داروں اور بعض اوقات اپنے محرم رشتوں کے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہوتی۔
اسلام کے علاوہ جدید سائنسی،نفسیاتی ، سماجی علوم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عورت اور مرد بحیثیت انسان برابر ہیں،بہت سے معاملات میں مرد آگے ہیں اور اسی طرح بعض میں خواتین اس کی وجہ دونوں کی طبعی ساخت اور ذمہ داریوں ہیں تو ان کے حقوق و فرائض میں بھی فرق پایا جاتا ہے ۔اس سے کوئی اعلی یا کمتر نہیں ہو جاتا۔ دنیا بھر میں 11 سے 15برس کی عمر کے لگ بھگ چار کروڑ لڑکیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں ۔پاکستان میں لڑکیوں کی ناخواندگی اس سے کہیں زیادہ ہے ۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں بچیوں کا تعلیم سے محروم رہنے کا سبب ان کی جلد شادی ہے ،یہ حقیقت پر پردہ ڈالنے والی بات ہے، لڑکیوں کی ناخواندگی کی وجہ غربت اور مہنگائی ہے۔
Daughters Day
غریب کے پاس پیسہ ہوتا تو وہ اپنی لڑکی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتا۔ غریب کی لڑکی ماں کی دوا،باپ کا ہاتھ بٹانے ،اپنا جہیز بنانے ، ،بچوں کو پالنے کے لئے نوکری کرتی ہے یا تعلیم حاصل کرکے ان مقاصد کے لیے نوکری کرتی ہے ۔چھوٹی چھوٹی ضرورتیں، مجبوریاں غرباَ کی بچیوں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اور دینی آداب سکھائے ) جب تک وہ بیٹیاں اسکے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے ) تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی ۔ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں ہم آزمائش کے لیے آئے ہیں۔
چنانچہ بیٹے یا بیٹی کا پیدا ہونا انسان کو شکر یا صبر کے امتحان میں ڈالتا ہے ۔نیز لڑکا ہو یا لڑکی ، اللہ تعالیٰ یہ دیکھتے ہیں کہ والدین کس طرح ان کی درست تربیت کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں ۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق بیٹیاں اپنے والدین کے لیے رحمت ہیں زحمت نہیں ہیں۔بیٹیاں دنیامیں اپنے والدین کی خدمت بیٹوں سے زیادہ کرتی ہیں اور آخرت میں بھی بخشش کا باعث بنتی ہیں۔
دنیا بھر میں 11 اکتوبر کو انٹر نیشنل ڈے فار دی گرلز چائلڈ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اقوام متحدہ نے 19 دسمبر 2011 کو یہ دن منانے کی قرار داد پاس کی تھی۔ لڑکیوں کا عالمی دن منانے کے مقاصددرج ذیل بتائے جاتے ہیں ۔قومی سطح پر لڑکیوں کے کردار کو اہمیت دینا ،عدم مساوات کا خاتمہ، انسانی حقوق کا تحفظ ،قبل از پیدائش جنس کا تعین پر قانونی روک نافذ،کم سنی کی شادی پر سزا ،چودہ سال تک لازمی تعلیم،سرکاری ملازمتوں، پارلیمانی ،مقامی نشستوں پر ایک تہائی کوٹہ ، خواتین کی بھلائی کے کاموں کی حوصلہ افزائی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔