تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم آج یہ بات نہ کسی سے ڈھکی چھپی ہے اور نہ ہی کسی سے پوشیدہ ہے مگربڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی ہمارے حکمران و سیاستدان اور کچھ مخصوص اداروں کے سربراہان ایسے بھی ہیں جنھیں شاید ابھی تک یہ معلوم نہیںہے کہ مُلک میں مہنگائی آسمان کی بلندیوں سے بھی اُونچی پرواز کر رہی ہے، غریب طبقے کا مہنگائی کی وجہ سے زندگی گزارنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا جارہاہے مگر پھر بھی اپنی خوش فہمی میں مبتلاحکمرانو، سیاستدانو اور اداروں کے سربراہان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کم ہے ، بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اِنہیں تو ٹھیک طرح سے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آج مُلکی معیشت کا کیا حال ہے؟؟یہ بُری ہے کہ اچھی مگرپھر بھی وثوق سے سب کا یہ دعویٰ ہے کہ مُلکی معیشت بہتر ہے اور سرمایہ کاری بھی تیزی سے اُوجِ ثُریاسے بھی آگے نکلی جارہی ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے جس کا پل پل مہنگائی، معیشت اور سرمایہ کاری سے متعلق برسرِ اقتدار جماعت ن لیگ کے بزنس مائنڈ وزیراعظم و حکومتی وزراءلہک لہک کر دعوے کررہے ہیں اورآج جس کے سب ہی مغنیہ ہیں۔
اَب اِس منظر اور پسِ منظر میں راقم الحرف بس اتنا ہی کہے گا کہ ارے بھئی جس طرح ہر چیز کی کوئی حد مقرر ہے یکدم اِسی طرح خوش فہمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،اَب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ مُلک میں بے لگام ہوتی مہنگائی، ڈنواں ڈول ہوتی مُلکی معیشت اور مُلک میں ہونے والی دگرگوں سرمایہ کاری سے متعلق سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اُدھر ڈیووس میں کس طرح حالتِ خوش فہمی میں مبتلاہمارے ضرور ت سے زیادہ خوش فہم وزیراعظم نواز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ”پاکستان میں مہنگائی کم، معیشت بہتر اور سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے، پاکستان معاشی طور پرتیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہاہے، عالمی میڈیااور ادارے پاکستان کی معیشت کے معترف ہیں ، جس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے“ اِس موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے خداجا نے اور کیا کیا کچھ نہیں کہا جس کا فی الحا ل اِس کا لم میں احاط کرنا محال ہے راقم الحرف نے باقی باتیں اپنے پھر کسی اگلے کالم کے لئے رکھ دی ہیں۔
تاہم راقم الحرف اِس موقع پر اتنا ضرور عرض کرناچاہئے گا کہ حکمران کوشش کریں کہ ہر معاملے کو خوش فہمی کے عینک سے دیکھنا اور جائزہ لینا چھوڑ دیں اور دنیا کے ہر فورم سے وہی حق و سچ روشناس کرائیں جو من و عن حقیقت پر مبنی ہوحقائق کے برعکس دعوے کرنانہ صرف خود کو دھوکہ دینے کے معترف ہے بلکہ سوچیں جب اصل حقا ئق دنیا کو لگ پتہ جا ئیں گے تو پھر کتنی سُبکی ہوگی سو حکمرانو، سیاستدانو اور اداروں کے سربراہان سے بس اتنی ہی التماس ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کریں گے بغیر کسی کے دباو ¿ میں آئے بس سچ و حق بیان کریں۔
Inflation
اُدھر ایک طرف ہمارے وزیراعظم مُلک میں بے لگام ہوتی مہنگائی ، تباہ حال معیشت اورمجموعی طور پرمُلک میں نہ ہونے والی غیر مستحکم اور غیر تسلی بخش سرما یہ کاری پرجس ولوالہ انگیز خوش فہمی میں مبتلاہیں اَب ہم اِس پر سِوائے اپنا سرپیٹنے اور گریبان چاک کرنے کے اور کیا کرسکتے ہیں مگر اِدھر وزیراعظم کے سیراب نما حسین خوابوں میں مبتلاوزیراعظم ہاو ¿س اسلام آباد کی انتظامیہ ہے کہ جس نے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پی ایم ہاو ¿س کی تزئین وآرائش کے لئے مختص رقم کومنسوخ کر دیاہے اور سینہ چوڑاکرکے اِس میں فی الفور اضافے کابھی مطالبہ کردیاہے گزشتہ دِنوں عالمی قرضوں اور امدادوں پر چلنے والے مُلکِ پاکستان کے وزیراعظم ہاو ¿س اسلام آباد کی انتظامیہ کے حوالے سے آنے والی ایک حیران کُن خبر نے تو راقم الحرف کی پریشانیوں میں اضافہ ہی کردیاہے خیال یہ ہے اگر یہ خبر کسی بھی محب وطن پاکستانی کی نظر سے گزری ہوگی یا کانوں سے ٹکرائی ہوگی تو وہ بھی راقم السطور کی طرح حیران اور پریشان ضرور ہوگیاہوگا۔ خبرکے مطابق پی ایم ہاوس کی انتظامیہ نے وزیراعظم ہاوس کی تزئین وا ٓرائش کے لئے مختص کئے گئے 11کروڑروپے نا کافی قراردے دیئے ہیں اور جواز یہ پیش کیا ہے کہ اَب اِس منصوبے پر ہر حال میں قومی اور عوامی خزانے سے 29کروڑ روپے خرچ ہوں گے اِس لئے کہ اَب وزیراعظم ہاو ¿س کی چائنا لفٹ(حالانکہ یہ لفٹ ابھی درست حالت میں ہے اور بہتر طریقے سے کام بھی کررہی ہے مگر چونکہ مُلکی معیشت بہتر ہوئی ہے اور وزیراعظم نوازشریف کے دعووں کے پیشِ نظر مُلک میں سرمایہ کاری بڑھی ہے اور مہنگائی بھی کم ہوئی ہے تو اِس) کی جگہہ وی آئی پی ویسٹرن لفٹ اور پی ایم ہاو ¿س کی عمارت کے اندرونی و بیرونی شیشے بلٹ پروف لگائے جا ئیں گے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ ہمارے وزیراعظم ہاو ¿س کی انتظامیہ نے تویہ بھی دعویٰ کرڈالا ہے کہ پی ایم ہاو ¿س کے فرنیچر کی لاگت بھی 4گنابڑھادی گئی ہے اور تو اور آج انتظامیہ نے منہ کھول کر یہ مطالبہ بھی کردیاہے کہ وزیراعظم ہاو ¿س میں نئے فیملی گیٹ بھی لگائے جائیں گے اوراَب موجودہ اے سی کی جگہہ جدید چلر لگائے بغیرکام نہیں چلے گا اوراگراَب بھی پی ایم ہاو ¿س کو بین الاقوامی وزرائے اعظم کے ہاو ¿سز کے معیار کے مطابق نہ لایا گیاتو دنیا کیا کہے گی کہ ایک ایٹمی (اور دنیا کے بہت سے ممالک سے قرضے اور امداد لے کر چلنے والے) مُلکِ پاکستان کے وزیراعظم ہاو ¿س کا اسٹینڈر عالمی معیار کے مطابق بھی نہیں ہے تو اِس پر دنیا کیا سمجھے گی ؟؟ کہ پاکستان کے وزیراعظم جو سال کے نو مہینے تواپنے سرکاری اور نجی حوالوں سے دنیا کے بیشتر ممالک کے دوروں پر ہی رہتے ہیں۔
اِس وزیراعظم ہاو ¿س کا یہ حال ہے کہ یہ جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے گویاکہ اپنی اِس خودساختہ فضول سوچ کی بنا پر وزیراعظم ہاو ¿س کی انتظامیہ کی جانب سے پی ایم ہاو ¿س کے اخراجات میں یکدم سے 11کروڑسے 29کروڑتک کااضافے کا مطالبہ کرنے والی خبر مُلک کی مہنگائی کے بوجھ تلے دھنسی پریشان و مفلوک الحال عوام پر عذاب بن کرگزری ہے مگر ہمارے موجودہ حکمرانوں کا اِس سے کیا واسطہ ؟؟بھلے سے عوام کو اِن کے بنیادی حقوق میسر نہ ہوں مگر اِن کا تو قومی اور عوامی خزانے سے اللے تللے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہے بس یہ نہ رُکے یہ چلتا رہے اور آگے بڑھتارہے اِن کے نزدیک کسی کو اِس سے کوئی تعلق اور کوئی غرض نہیں کہ عوام جیئں کہ مریں،اِن کا کام دنیا کو خوش فہمی کی گُھٹی میں ڈبوکرچلتارہے اور بس۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com